سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں سزا سنانے والے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین 20 دن کی چھٹی پر چلے گئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے سائفر کیس کو نمٹانے کے لیے قائم کی گئی خصوصی عدالت (آفیشل سیکرٹس ایکٹ) کے لیے ایک نیا جج مقرر کیا ہے۔
وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق خصوصی عدالت کا چارج ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا کو سونپا گیا ہے۔
انہیں حال ہی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کے خصوصی جج کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔
جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کی چھٹی کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے منظور کی، جو دارالحکومت کی خصوصی عدالتوں کے انسپکشن جج بھی ہیں۔
جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کو چھٹی دینے کا فیصلہ اس وقت ہوا جب جسٹس محسن اختر کیانی نے سفارش کی کہ جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کو مبینہ بدانتظامی کے الزامات کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ واپس جانا چاہیے۔
جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کو 2022 میں 3 سالہ ڈیپوٹیشن پر لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد جوڈیشل سروس میں تعینات کیا گیا تھا۔
وہ اسلام آباد اے ٹی سی کے پریزائیڈنگ جج تھے جب انہیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر ٹرائل کی نگرانی کے لیے خصوصی عدالت کا چارج بھی دیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی جانب سے پی ٹی آئی رہنما عامر مسعود مغل کی ضمانت منظور کرنے سے متعلق سماعت کے دوران ان کے رویے کے بارے میں کیے گئے تبصروں کے بعد جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کو لاہور ہائی کورٹ میں اپنے سابقہ عہدے پر واپس آنے کا مشورہ دیا گیا۔
پی ٹی آئی رہنما، جنہیں گزشتہ سال مارچ میں پولیس وین کو آگ لگانے والے فسادیوں کے ایک گروپ کی قیادت کرنے کے لیے نامزد کیا گیا تھا، نے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی تھی۔
6 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران وہ اے ٹی سی کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین کے سامنے پیش ہوئے اور 8 فروری کے عام انتخابات تک ملتوی کرنے کی درخواست کی، جس میں وہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے تھے۔
فاضل جج نے درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کر دی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بنچ نے مشاہدہ کیا کہ جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے کھلی عدالت میں پڑھے گئے مختصر حکم کے دوران التوا کا اعلان کیا، تاہم بعد میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے مذکورہ درخواست کو غیر قانونی کارروائی کی وجہ سے خارج کر دیا گیا تھا۔
بنچ کے حکم کے مطابق درخواست گزار اور ان کے وکلا کو حقائق کی تصدیق کے لیے عدالت کے سامنے الگ الگ حلف نامے جمع کرانے کو کہا گیا۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ تفتیشی افسر نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اے ٹی سی جج نے واقعی 6 فروری کو التوا کا حکم دیا تھا۔
حکم میں کہا گیا کہ اس موقع پر ہم سپریم کورٹ کے طے کردہ اصولوں اور قوانین کے مطابق پریذائیڈنگ آفیسر کے طرز عمل کے بارے میں مشاہدات کرنے سے گریز کریں گے