پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے وزیرِ خزانہ اور سینیٹر اسحاق ڈار کو ملک کا نائب وزیرِاعظم مقرر کر دیا ہے۔
اتوار کو اس ضمن میں کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سینیٹر اسحاق ڈار کو فوری طور پر تاحکمِ ثانی ملک کا نائب وزیرِاعظم مقرر کیا ہے۔
اس وقت وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار وزیرِاعظم شہباز شریف کے ساتھ سعودی عرب میں موجود ہیں جہاں وہ عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی وزیرِاعظم نے کسی کو اپنا نائب مقرر کیا ہوا۔ اس سے قبل سنہ 2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت میں اس وقت کی حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے چوہدری پرویز الٰہی کو بھی ملک کا نائب وزیراعظم مقرر کیا گیا تھا۔تاہم اُس وقت کابینہ ڈویژن سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ نائب وزیراعظم کے پاس ’وزیراعظم کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔‘
پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی وزیرِاعظم نے ملک کا نائب وزیرِاعظم مقرر کیا ہو
بحیثیت نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار کے پاس کیا اختیارات ہوں گے؟
پاکستانی حکومت یا وزارتِ اطلاعات کی جانب سے تاحال یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ بطور نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار کے پاس کیا اختیارات ہوں گے۔
ادھر آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ’نائب وزیراعظم‘ کے عہدے کا کوئی ذکر نہیں۔
پاکستان میں پارلیمانی سیاست پر نظر رکھنے والی تنظیم ’فافن‘ سے منسلک راشد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک انفارمل سا عہدہ ہے اور حالیہ تاریخ میں ہمیں اس کی مثال بھی ملتی ہے جب چوہدری پرویز الٰہی کو اس منصب پر فائر کیا گیا تھا۔‘
’یہ ایک اِنفارمل پوزیشن ہے اور ایک ایگزیکٹو آرڈر (وزیر اعظم کے حکم) کے ذریعے وجود میں آئی ہے۔‘
پاکستان میں قانون سازی اور جمہوری نظام کا جائزہ لینے والے تھنک ٹینک پلڈاٹ سے منسلک احمد بلال محبوب بھی راشد چوہدری سے اتفاق کرتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستانی آئین میں نائب وزیرِ اعظم کی پوزیشن کا کوئی ذکر نہیں، یہ ایک نمائشی عہدہ ہے۔‘
’یوں کہہ لیجیے کہ جب کسی وزیر کی انا کو تسکین پہنچانی ہو تو اسے کہا جاتا ہے کہ دیکھیں وفاقی کابینہ میں باقی سب تو صرف وزیر ہیں لیکن آپ خاص ہیں اور اسی لیے آپ نائب وزیرِاعظم بھی ہیں۔‘
نائب وزیرِاعظم کے اختیارات پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار عارفہ نور کہتی ہیں کہ اسحاق ڈار ن لیگ میں ایک طاقتور شخصیت ہیں۔
’آپ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ پچھلی پی ڈی ایم کی حکومت میں اسحاق ڈار لندن میں مقیم تھے اور انھوں نے وہاں بیٹھے بیٹھے اس وقت کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو ان کے عہدے سے ہٹوا دیا تھا اور خود پاکستان آ کر وزیرِ خزانہ بن گئے تھے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ’نائب وزیراعظم‘ کے عہدے کا کوئی ذکر نہیں
اسحاق ڈار کو نائب وزیرِاعظم بنانے کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
اس وقت یہ بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں کہ پاکستانی وزیرِاعظم کو وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیرِ اعظم مقرر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وزیرِاعظم کو حق ہے کہ وہ اپنے کام کا بوجھ شیئر کریں اور اور ایسے شخص کا انتخاب کر سکیں جو ان کا ہاتھ بٹا سکے۔‘
’وزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنی سہولت اور رضا کے مطابق یہ فیصلہ لیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ڈار صاحب انتظامی، سیاسی اور اقتصادی امور کے تمام پہلوؤں کو جانتے ہیں اور وہ وزیرِاعظم کے ساتھ مل کر ہر کام احسن طریقے سے کریں گے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسحاق ڈار کو نائب وزیرِاعظم مقرر کرنے میں نواز شریف کی مرضی موجود ہے تو انھوں نے کہا کہ ’شہباز شریف اہم فیصلوں پر عمومی طور پر نواز شریف سے مشاورت کرتے ہیں، ممکن ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے بھی ان کی رائے لی ہو۔‘
دوسری جانب پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیرِ اعظم تقرری کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست سے ہے۔
لاہور میں مقیم تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’اسحاق ڈار ماضی میں نواز شریف کی حکومتوں میں ہمیشہ معتبر رہے ہیں اور جب بھی نواز شریف کوئی فیصلہ لیتے ہیں تو اسحاق ڈار سے ضرور مشورہ کرتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ ماضی میں اسحاق ڈار چار بار وزیر خزانہ رہ چکے ہیں لیکن اس بار وزیرِاعظم شہباز شریف کی حکومت نے محمد اورنگزیب کو اس منصب پر فائز کیا اور اسحاق ڈار کو وزیرِ خزانہ بنایا۔
سلمان غنی کا ماننا ہے کہ چونکہ اس بار اسحاق ڈار کو وزیرِ خزانہ نہیں بنایا جا سکا تھا اس لیے ہوسکتا ہے انھیں نائب وزیرِ اعظم بنانے کا مقصد محض انھیں خوش کرنا ہو۔
اسحاق ڈار سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے سمدھی بھی ہیں۔
نواز شریف کے نزدیک اسحاق ڈار کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے سلمان غنی کہتے ہیں کہ: ’میں اکثر کہتا ہوں کہ میں ن لیگ میں کسی بھی قسم کے مذاکرات یا بات چیت کو تب تک سنجیدہ نہیں سمجھتا جب تک اسحاق ڈار اس میں شامل نہ ہوں۔‘
دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار کو نائب وزیرِاعظم بنانا وزیرِاعظم شہباز شریف کا نہیں بلکہ ان کے بڑے بھائی نواز شریف کا فیصلہ ہو سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار عارفہ نور کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ وزیراعظم شہباز شریف کا کم اور نواز شریف کا فیصلہ زیادہ ہوگا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں اہم سوال یہ ہے کہ نواز شریف کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟‘
ان کے مطابق اس فیصلے کے پیچھے دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ’اسحاق ڈار کو اس بار وزیرِ خزانہ بھی نہیں بنایا گیا، اس لیے شاید انھیں خوش کرنے کے لیے انھیں نائب وزیرِاعظم بھی بنا دیا گیا ہے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کو لگا ہو کہ اسحاق ڈار بطور نائب وزیرِاعظم کابینہ میں ان کی اچھی طرح سے نمائندگی کر پائیں گے۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیرِ اعظم تقرری کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست سے ہے
پچھلے کئی مہینوں سے ن لیگ کے سینیئر رہنماؤں بشمول رانا ثنا اللہ اور میاں جاوید لطیف کی جانب سے ایسے بیانات جاری کیے گئے ہیں جنھیں دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے جیسے جماعت کے اندر حکومتی معاملات کو لے کر کچھ اختلافات موجود ہیں۔
تجزیہ کار احمد ولید نے بتایا کہ ن لیگ میں اختلافات کا تاثر ملنا کوئی نئی بات نہیں۔
نواز شریف اور شہباز شریف کے طرزِ سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’پچھلی کئی دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک بھائی اسٹیبلشمنٹ کا حامی ہوتا ہے تو دوسرا اس کے خلاف کھڑا دکھائی دیتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بھی ن لیگ میں حکومتی امور چلانے کے حوالے سے بعض رہنماؤں کو اختلافات ہیں۔ ’اسحاق ڈار پر انگلیاں اُٹھائی جا رہی ہیں کہ انھیں بطور وزیرِ خزانہ کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں۔‘
’لیکن ن لیگ کی سیاست ہم نے یہی دیکھی ہے کہ جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو شہباز شریف وزیرِ اعلیٰ پنجاب تھے۔ اب مریم نواز وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہیں، ان پر ہمیشہ سے یہی تنقید ہوتی ہے کہ یہ لوگ یہ طاقتور عہدے خاندان میں ہی رکھتے ہیں۔‘
احمد ولید کے مطابق ’میرے خیال میں شہباز شریف نے اسحاق ڈار کو نائب وزیرِ اعظم بنا کر اس تاثر کو رد کرنے کی کوشش کی ہے کہ نواز شریف یا ان میں کوئی اختلاف ہے۔‘