بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی شہر واشک میں ’خوراکی اشیا کی قلت‘ کے خلاف شٹرڈائون ہڑتال کی جا رہی ہے ۔ شٹرڈائون ہڑتال کی وجہ سے شہر میں تمام دکانیں بند ہیں۔
شٹرڈائون ہڑتال ایک ہفتے سے زائد کے عرصے سے قائم اس احتجاجی کیمپ کے بعد کی جا رہی ہے جو کہ شہریوں کی جانب سے سیلاب کے باعث زمینی رابطے منقطع ہونے پر خوراکی اشیا کی قلت کے خلاف قائم کیا گیا تھا۔
ماشکیل سے تعلق رکھنے والے سابق کونسلر اور سماجی کارکن جیئند خان ریکی نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے دالبندین کی جانب سے ماشکیل کا زمینی رابطہ بلوچستان کے دیگر شہروں سے منقطع ہو گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ زمینی راستے کی بندش سے شہر میں خوراکی اشیا کی قلت پیدا ہو گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے خوراکی اشیا کی قلت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا اور ان کا مطالبہ ہے کہ ایران کے ساتھ کاٹاگر زیرو پوائنٹ کو کھولا جائے تاکہ لوگ خوراکی اشیا حاصل کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں لوگوں کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر لوگوں نے آج سے شہر میں کاروباری مراکز بند کیے ہیں۔ ماشکیل سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما سردار مراد ریکی نے بتایا کہ ایران سے یہ کراسنگ پوائنٹ کورونا کی وجہ سے بند کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دالبندین سے رابطہ منقطع ہونے کے باعث اب لوگوں کے لیے ایران سے سستی خوراکی اشیا حاصل کرنے کا واحد آسان راستہ رہ گیا ہے اس لیے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کو کھول دیا جائے تاکہ وہاں سے خوراکی اشیا حاصل کی جائیں کیونکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ان کے بقول کوئی انسانی المیہ جنم نہیں لے سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ واشک سے ماشکیل کے لیے انتظامیہ کی جانب سے جس دوسرے راستے کی بات کی جا رہی ہے وہ نہ صرف طویل اور دشوار گزار ہے بلکہ امن و امان کی وجہ سے وہ غیر محفوظ بھی ہے۔
ضلع واشک سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی میر زابد ریکی نے بتایا کہ بارش اور سیلاب کی صورت میں ماشکیل ایک جزیرہ بن جاتا ہے اور ایسی صورت میں ایران ہی لوگوں کے خوراک اور ایندھن حاصل کرنے کا واحد آپشن رہ جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ انھوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی سے رابطہ کیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ ایف سی والوں کو ایران سے زیروپوائنٹ دس پندرہ دن کھولنے کے لیے کہے تاکہ لوگ ایران سے خوراک اور ایندھن حاصل کریں۔
انھوں نے کہا کہ عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے ان کی بات کی جانب بھی توجہ نہیں دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے لوگ احتجاج اور ہڑتال پر مجبور ہوئے۔
ماشکیل ضلع واشک کی تحصیل ہے اور یہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً سات سو کلومیٹر دور مغرب میں ایران سے متصل علاقہ ہے۔
نہ صرف ماشکیل بلکہ پورا ضلع واشک کا شمار بلوچستان کے انتہائی پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ طویل مسافت اور دشوارگزار راستوں کی وجہ سے ماشکیل میں کوئٹہ اور دیگر شہروں کی بہ نسبت پاکستان سے جانے والی بنیادی اشیا صرف کی قیمتیں زیادہ ہیں۔
رابطہ کرنے پر ڈپٹی کمشنر واشک منصور قاضی نے کہا کہ چونکہ ایران سے زیروپوائنٹ کو کھولنے کا معاملہ دو ممالک کے درمیان ہے اس لیے انھوں نے اس معاملے پر محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کو چٹی تحریر کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بارشوں کی وجہ سے اگرچہ دالبندین سے راستہ بند ہے لیکن واشک اور پلنتاک کے راستے ماشکیل کے لیے خوراکی اشیا بھیجنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ خوراکی اشیا کے حوالے سے صورتحال سنگین نہیں ہے اور ضلعی انتظامیہ کی یہ کوشش ہے کہ وہاں خوراکی اشیا کی قلت پیدا نہ ہو۔