’جب فیض آباد دھرنا ہوا تو دُنیا کو پتا تھا کہ پاکستان کو کون چلا رہا ہے‘ چیف جسٹس

Pinterest LinkedIn Tumblr +

اٹارنی جنرل نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے دی جانے والی تجاویز پڑّیں ’تجاویز دی گئیں کہ اس میں کہا گیا کہ اگر فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو جاتا تو عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت ختم ہو جاتی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس عدالتی فیصلے کے خلاف جو نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں وہ چار سال تک سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی گئیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلیں دائر کرنے والوں میں آئی ایس آئی کے علاوہ اس وقت کی حکومت اور سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اس فیصلے میں کہا تھا کہ فیض حمید اس کا ذمہ دار ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ بعد میں تمام نے نظرثانی کی اپیلیں واپس لے لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’فیض آباد دھرنا سے متعلق ذمہ داروں کے تعین سے متعلق ایک کمیشن بنایا حالانکہ وہ خود بھی کرسکتے تھے انھوں نے کہا کہ جب یہ دھرنا ہوا تو اس وقت دنیا کو معلوم تھا کہ پاکستان کو کون چلا رہا تھا۔‘

بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’فیض آباد دھرنے سے متعلق جو تین رکنی کمیشن بنایا گیا تھا اس نے اپنی تجاویز سے اس عدالتی فیصلے کو ہی غیر موثر کردیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کمیشن نے قانون سازی کرنے کے بارے میں بھی کہا تھا لیکن ابھی تک حکومت نے کوئی قانون سازی نہیں کی۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’وہ پارلیمان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی تو دوسری طاقتیں مضبوط ہو جائیں گی۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’سب کو معلوم ہے کہ سچ کیا ہے لیکن بولنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کوئی جج دباؤ کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات نہیں ہے تو اس کو جج رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

دورانِ سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’جو سچ بولتا ہے اُس کے ساتھ وہی ہوتا ہے کہ جو آج اُن چھ ججز کے ساتھ ہو رہا ہے جنھوں نے آواز بلند کی۔‘

Share.

Leave A Reply