9 مئی کو گزرے ایک سال ہونے کو آرہا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس تاریخ کو رونما ہونے والے بدقسمت سانحے کے بارے میں مزید تحریریں ہماری نظروں سے گزریں گی۔ بہت سے ایسے لوگوں کے بارے میں بھی باتیں ہوں گی جن پر الزامات عائد کیے گئے پھر وہ قید میں ہوں یا نہیں، اور ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر بھی بات ہوگی جو کسی اقدام پر نادم نہیں۔
لیکن اس بات پر بہت کم بحث ہوگی کہ آگے کیسے بڑھا جائے کیونکہ عوامی مباحثوں میں سچائی شاذ و نادر ہی نظر آتی ہے۔ اور کچھ حلقے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات کو بھی موضوعِ گفتگو بنائیں گے کہ کیسے ان دونوں کے تعلقات سے ملک متاثر ہوا۔
سب سے پہلے پی ٹی آئی کی بات کرتے ہیں۔ 12 ماہ قبل پارٹی کے خاتمے کی قیاس آرائیوں اور پارٹی رہنماؤں کی تیزی سے پارٹی رکنیت چھوڑنے جیسی تمام تر مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی نے عام انتخابات 2024ء میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اب وہ ایک بار پھر اپنے پرانے اور نئے مسائل کی زد میں ہے۔ حتیٰ کہ جب وہ برسراقتدار تھی تب بھی وہ ایک ایسی جماعت تھی جس میں تنظیمی نظم وضبط کی کمی تھی۔ اب جبکہ پارٹی مشکل وقت سے گزر رہی ہے تب بھی کچھ نہیں بدلا۔ عمران خان تک رسائی محدود ہونے کی وجہ سے ان کی جماعت خوف زدہ صورت حال (Panic mode) سے دوچار ہے۔ پی ٹی آئی میں جہاں پرانی رقابتیں برقرار ہیں وہیں سامنے آنے والے نئے نام جیسے وکلا اور دیگر پرانے سیاستدان بھی آپس میں جھگڑتے نظر آتے ہیں۔
ایسے میں فیصلہ سازی زیادہ مشکل ہوگئی ہے۔ انتظار کیا جاتا ہے کہ عمران خان سے ملاقات کب ہوسکتی ہے اور ان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کون کرے گا۔ بعض اوقات ایسے فیصلے ’یوٹرن‘ ہوتے ہیں جبکہ بعض اوقات یہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ ایک دائرے میں چکر لگارہے ہیں جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستے تلاش کرنے سے وہ قاصر ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیرخرانہ کے انتخاب پر ہی غور کرلیں جس میں نامزد وزیراعلیٰ اپنی ذاتی چپقلش کی بنیاد پر عمران خان کی ہدایات کو نظرانداز کرنے والے تھے۔
یا اس بات میں الجھن کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کے لیے پی ٹی آئی کسے منتخب کرے گی۔ ہفتوں تک یہ وضاحت نہ ہوسکی کہ شیر افضل مروت جوکہ ایک ایسا میزائل ہیں جو عموماً حریفوں کے بجائے اپنی ہی جماعت پر گرتا ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کے لیے پارٹی کا انتخاب ہوں گے یا کوئی اور۔ ڈان کے مطابق یہ معاملہ اس وقت حل ہوا جب ڈرامے کے بعد ایک منطقی فیصلہ لیا گیا اور پی ٹی آئی نے شیخ وقاص کا انتخاب کیا۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات سے زیادہ پی ٹی آئی کو نقصان ان کی غلط فیصلہ سازی کی وجہ سے ہوا۔ اگر اسے طویل مدتی تناظر سے دیکھیں تو یہ شاید اس قدر نقصان دہ محسوس نہ ہو۔ لیکن اس سے زیادہ اہم پارٹی کے پاس محدود آپشنز ہیں۔ اس کی مقبولیت اب ایک ایسی سطح پر ہے جس سے کوئی بھی انکاری نہیں ہے لیکن یہ سب ایک قیمت ادا کرکے حاصل ہوا ہے۔ رائے دہندگان کی کیفیات کو مدنظر رکھا جائے تو اگر پی ٹی آئی موجودہ سیٹ اپ یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کرلیتی ہے تو وہ عوامی حمایت سے محروم ہوسکتی ہے [مسلم لیگ (ن) کی کم ہوتی حمایت اس بات کی گواہی ہے]۔ لیکن پی ٹی آئی اس ڈیڈ لاک کو برقرار بھی نہیں رکھ سکتی۔
خیبرپختونخوا حکومت کا تصور کریں جو اپنے ابتدائی دنوں میں ہی تنقید کا موقع دے رہی ہے جہاں پی ٹی آئی بالخصوص علی امین گنڈاپور پٌر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ کارکنان پر سمجھوتہ کررہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کے ایک کارکن کے لاپتا ہونے پر صوبائی حکومت کی خاموشی سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔
درحقیقت سمجھوتے یا اقدامات سے گریز کی چھوٹی سی کوشش کو بھی دھوکے کی علامت سمجھا جائے گا، یعنی کارکنان اس حد تک جذباتی ہیں۔ لیکن وفاق اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنائے بغیر پی ٹی آئی صوبائی حکومت کیسے چلا سکتی ہے؟ فی الحال پارٹی کے پاس اس حوالے سے کوئی جواب نہیں (پنجاب پر بھی اسی طرح کا دباؤ ہے)۔ تاہم یہ صرف پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی المیہ ہے جو ماضی میں کسی مقابلے کے بغیر مقبول قوتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرتی آرہی تھی۔
1980ء کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اسٹیبلشمنٹ نے ایسا ہی کیا۔ کچھ لوگ دلیل پیش کریں گے کہ اس وقت حالات مختلف تھے حالانکہ ان دونوں کیسز کے درمیان ایک دہائی سے بھی کم وقت تھا۔ لیکن ہاں یہ ایسے وقت میں ہوا تھا کہ جب ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کی زد میں نہیں تھا جوکہ ایک بنیادی وجہ ہے جس نے آج پی ٹی آئی کو ایک طاقتور قوت بنا دیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ایک غیرمقبول حکومت اور بدحال معیشت کا بوجھ اٹھانا اسٹیبلشمنٹ کے لیے آسان نہیں ہے جوکہ پنجاب و دیگر علاقوں سے عوامی حمایت ملنے کا دعویٰ کرتی ہو۔ لیکن اس وقت مقبول جماعت کو دیوار سے لگانے کے کوئی مثبت اثرات سامنے نہیں آئیں گے بلکہ درحقیقت یہ تو ایک بری خبر ہے جو ہمیں زیادہ ٹیکسز اور بلز کی صورت میں دیکھنے کو ملے گی۔ گمان ہوتا ہے کہ جیسے گزشتہ ایک سال نشان دہی کرتا ہے کہ ایسی صورت حال سے نمٹنے کا واحد طریقہ عوام، سیاست دانوں، مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کو دبانے کے لیے ان کے خلاف اقدامات ہیں۔
تاہم جبر کے ذریعے آواز دبانے کا واحد منفی پہلو یہ ہے اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو پھر آپ کو مستقل طور پر ایسا کرتے رہنا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود یہ حمایت کی کمی یا قانونی حیثیت نہ ہونے جیسی منفی خصوصیات کو چھپانے کے لیے کافی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے ’ری سیٹ‘ کے آپشن کو ترجیح دی۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی سے زیادہ مشکل انتخاب کا سامنا ہے۔
اگر کوئی خاص تبدیلی نہیں آتی تو پنڈولم عمران خان کے حق میں جھولتا رہے گا۔ یاد کریں کہ عمران خان کی گرفتاری کے پہلے یہ چہ مگوئیاں ہوتی تھیں کہ وہ کیسے اپنی پارٹی اور کارکنان کو داؤ پر لگا کر ان کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ لیکن پھر وہ گرفتار ہوگئے اور ان چہ مگوئیوں نے دم توڑ دیا۔ اب یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ عمران خان پر سے پابندیاں کم کرنے کی قیمت آخر کیا ہوگی؟
مستقبل قریب میں اگر انہیں (عمران خان کو) کبھی عوام کے سامنے آنے کی اجازت مل گئی پھر چاہے وہ عدالت میں پیشی کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو، تو ایسے میں عوامی ردِ عمل کو قابو میں رکھنا ممکن ہوسکے گا؟ اگر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان جنگ بندی نہیں ہوتی تو اسٹیبلشمنٹ عوامی غم و غصے اور توقعات کو کیسے سنبھالے گی بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب وہ اگلے آئی ایم ایف پروگرام کی تیاری کررہے ہیں؟
اس کا ادراک، اس دباؤ کو بیان کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بات چیت کرنے کی ضرروت کیوں ہے۔ چند شاکی لوگوں کے لیے اس پر اعتبار کرنا مشکل ہورہا ہے کہ یہ دباؤ جمہوریت کے حامیوں کی جانب سے ڈالا جارہا ہے یا ان لوگوں کی جانب سے جو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کو ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔
تاہم ایک سال گزر چکا ہے، کچھ تو ہونا چاہیے اور اس تقاضے کی وجہ بھی موجود ہے البتہ پاکستان میں کچھ عرصے سے اس وجہ کی اہمیت نہیں ہے۔ یوں ہی سب چلتا رہا تو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی دونوں کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔