توشہ خانہ گاڑی ریفرنس:نواز شریف کی جانب سے بریت کی درخواست دائر، نوٹس جاری

Pinterest LinkedIn Tumblr +

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں توشہ خانہ گاڑیوں کے ریفرنس میں دائر بریت کی درخواست پر دلائل دینے کے لیے عدالت نے فریقین کو 23 مئی کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔

ڈان نیوز کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری ، نواز شریف ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ گاڑیوں کے ریفرنس پر سماعت احتساب عدالت اسلام آباد کے جج ناصر جاوید رانا نے کی۔

صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے ارشد تبریز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نواز شریف کی جانب سے ان کے پلیڈر رانا محمد عرفان عدالت کے روبرو حاضر ہوئے۔

دوران سماعت نواز شریف کی جانب سے عدالت میں بریت کی درخواست دائر کردی گئی جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ بریت کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیتے ہیں۔

پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ میں اس درخواست کو قومی احتساب بیورو (نیب) ہیڈ کوارٹر بھجوا دیتا ہوں ، شارٹ نوٹس کردیں۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے نواز شریف کی بریت کی درخواست پر دلائل کے لیے فریقین کو 23 مئی کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔

ساتھ ہی احتساب عدالت نے یوسف رضا گیلانی کی جانب سے دائر کی گئی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی منظور کرلی۔

اس کے بعد صدر آصف علی زرداری کے وکیل ارشد تبریز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آصف زرداری کو صدارتی استثنیٰ حاصل ہے، ان کی حد تک کیس نہیں چل سکتا۔

نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ صدراتی استثنیٰ کے حوالے سے درخواست مل گئی ہے، اس کا جائزہ لے رہے ہیں ۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس پر سماعت 3 جون تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ 17 اپریل کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ کی گاڑیوں سے متعلق ریفرنس سے بری کرنے کی استدعا کردی تھی۔

22 اپریل کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس میں فوجداری کارروائی ختم کرنے کی درخواست منظور کر لی تھی۔

19 مارچ کو احتساب عدالت اسلام آباد نے صدر مملکت آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اور تحائف وصول کرنے سے متعلق ریفرنس میں آئندہ سماعت پر قومی احتساب بیورو (نیب) سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔

اس سے قبل احتساب عدالت اسلام آباد نے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف توشہ خانہ سے قیمتی گاڑیاں اور تحائف وصول کرنے سے متعلق نیب ریفرنس کی سماعت جج کی عدم دستیابی کے باعث ملتوی کردی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس
احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف پر غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔

اس ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔

بیورو نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری نے ستمبر اور اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007 اور لیبیا سے بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کیں۔

مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ٖڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔

نیب ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔

ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے آواری ٹاور کے نیشنل بینک کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کی جانب سے ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی، ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کے ناجائز فوائد کے لیے مجموی طور پر 2 کروڑ 3 لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔

دوسری جانب خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 3 ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر ادائیگیاں کیں۔

نیب نے ان افراد پر بدعنوانی کا جرم کرنے اور نیب قوانین کے تحت واضح کی گئیں کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہنے کا الزام لگایا۔

نیب نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان ملزمان پر مقدمہ چلا کر سخت ترین جیل کی سزا دی جائے۔

Share.

Leave A Reply