غزہ: جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران اسرائیل نے رفح کراسنگ پر قبضہ کر لیا

Pinterest LinkedIn Tumblr +

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی افواج نے غزہ اور مصر کے درمیان فلسطینی سائیڈ پر رفع کراسنگ پر قبضہ (آپریشنل کنٹرول سنبھال لیا) کر لیا ہے۔

گذشتہ برس اکتوبر میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے رفع، غزہ میں امداد پہنچانے اور جنگ سے جان بچا کر نکلنے والوں کے لیے واحد راستہ بچا تھا۔

رات بھر شدید حملوں اور گولہ باری کے بعد ٹینکوں پر مشتمل اسرائیلی بریگیڈ رفع کراسنگ میں داخل ہو گئی ہے۔

اقوامِ متحدہ نے تنبیہ کی ہے کہ رفع کراسنگ کی بندش کا مطلب ہے غزہ کے لیے دو اہم امدادی راستے بند ہو چکے ہیں۔

حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے رفح کراسنگ پر قبضہ کرنے کا مقصد علاقائی ثالثوں کی جانب سے جنگ بندی کے نئے معاہدے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو کمزور کرنا ہے۔

پیر کی شام حماس نے مصر اور قطر کی ثالثی میں کیے جانے والے جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط پر اتفاق کرنے کا اعلان کیا تھا جس کی بنا پر لڑائی میں ایک ہفتے کا وقفہ اور غزہ میں قید اسرائیلیوں کی رہائی شامل ہے تاہم اسرائیل نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ اُن کے ’(جنگ بندی سے متعلق) اہم اور بنیادی مطالبات سے مطابقت نہیں رکھتا‘ اور مزید یہ کہ اسرائیل اب ایک ’قابل قبول معاہدے‘ کے لیے مصر میں اپنا ایک وفد بھیج رہا ہے۔

تصویر

حماس کی جانب سے جنگ بندی کی شرائط رضامندی کا اعلان سامنے آنے کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے رفح کے مشرقی حصے میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تازہ ترین حملوں سے قبل انھوں نے فلسطینوں کو علاقہ خالی کرنے کی ہدایات جاری کیں جس کے بعد ہزاروں لوگ رفح کے شمال میں واقعے اس حصے کی جانب منتقل ہو گئے ہیں جسے اسرائیلی فوج نے ’ہیومینیٹیرین ایریا‘ (انسانی ہمدردی اور مدد کا علاقہ) قرار دے رکھا ہے۔

اسرائیل کے مطابق رفح میں ہونے والا یہ فوجی آپریشن ٹارگٹڈ (محدود) ہے۔ اسرائیل کے تازہ حملے کے جواب میں فلسطینی اسلامی جہاد نے حماس کے ساتھ مل کر جنوبی اسرائیل پر راکٹ فائر داغے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے مشرقی رفح پر تازہ ترین حملوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں خاصی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی ٹینکوں کو مصر کی سرحد کے بالکل قریبی راستے پر رفح کی جانب بڑھتے دیکھا گیا ہے تاہم بی بی سی آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کر سکا۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان بات چیت ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور اُن کے مطابق ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ معاملہ اس سے قبل کبھی اتنا حساس تھا۔‘

تصویر

مشرقی رفح پر رات گئے ہونے والے حملوں کی فوٹیج
حماس کے غیرمتوقع فیصلے کے بعد نتن یاہو کو مشکل فیصلوں کا سامنا: مدیر بین الاقوامی اُمور جیریمی بوؤن کا تجزیہ
حماس کی جانب سے جنگ بندی کی شرائط قبول کرنے کے اعلان نے بیشتر مبصرین کو حیران کر دیا ہے اور اگلے چند ہفتوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں اسرائیل کی توقعات کو دھچکا پہنچایا ہے۔

اسرائیل میں عام خیال یہ تھا کہ حماس جنگ بندی کی شرائط کو قبول نہیں کرے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ابتدائی طور پر اسرائیل نے فلسطینیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اسرائیلی فوجی آپریشن کے پیش نظر رفح کے مشرقی حصے سے نقل مکانی کر جائیں۔

امریکہ رفح میں کسی بھی ایسی اسرائیلی زمینی کارروائی یا فوجی آپریشن کی مخالفت کرتا ہے جس سے عام فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو۔ تاہم امریکی خدشات کے باوجود اسرائیلی وزیر دفاع نے حال ہی میں اپنے امریکی ہم منصب پر واضح کیا تھا کہ رفح میں زمینی کارروائی کے علاوہ اُن کے پاس کوئی آپشن موجود نہیں ہے کیونکہ حماس نے عارضی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی جیسی ہر تجویز کو ماضی میں مسترد کیا ہے۔

تاہم اس دوران امریکا، مصر اور قطر کے ثالث فریقین پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالتے آئے ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز نے اپنے گذشتہ دن کا بیشتر حصہ قطر کے وزیراعظم سے ملاقاتوں کے سلسلے میں دوحہ میں گزارا، دوحہ حماس کی سیاسی قیادت کا مرکز بھی ہے۔

اور ان کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیر کی شام حماس نے جنگ بندی کو قبول کرنے کا اعلان کیا جبکہ فلسطینی ذرائع نے اشارہ دیا ہے کہ حماس طویل مدتی جنگ بندی کے لیے بھی تیار ہو سکتا ہے۔

حماس کے اس اعلان کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کا پہلا عوامی ردعمل یہ تھا کہ حماس ’(جنگ بندی کے لیے) اسرائیل کے مطالبات کو پورا کرنے سے کوسوں دور ہے۔‘ تاہم اس بیان کے باوجود ان کی جانب سے اس معاملے پر بات چیت کے لیے ایک وفد روانہ کیا گیا ہے۔

وزیراعظم نتن یاہو کی سیاسی مجبوریاں بھی ہیں۔ اسرائیلی میں اُن کی مخلوط حکومت کے قائم رہنے کا انحصار انتہائی قوم پرست یہودیوں کی حمایت پر ہے۔ اور نتن یاہو کے حامی قوم پرست گروہوں نے رفح پر مکمل قبضے کا مطالبہ کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ حکومت کو گرا دیں گے۔ جبکہ دوسری جانب جنگ بندی کا مطلب یہ ہو گا کہ اسرائیل کی جانب سے رفح پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ہی اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ اور حامیوں نے ملک میں تازہ مظاہرے کیے ہیں، انھوں نے سڑکیں بلاک کیں اور مطالبہ کیا کہ اسرائیلی حکومت جلد از جلد جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرے تاکہ ان کے پیارے جلد گھروں کو لوٹ سکیں۔

امریکی بھی چاہتا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے۔صدر جو بائیڈن کو اسرائیل کے لیے اپنی حمایت، اس کے باوجود کے اسرائیل نے غزہ میں بڑی تعداد میں فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا ہے، مہنگی پڑ رہی ہے اور امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے اس سال میں انھیں اس حمایت کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

حماس نے نتن یاہو کو مسلسل دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ اگر صدر بائیڈن انھیں جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو انھیں اپنی مخلوط حکومت کی بقا اور 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد امریکی صدر کی جانب سے دی جانے والی اہم حمایت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

جنگ بندی کا مطلب یہ بھی ہو گا کہ اسرائیل نے ’مکمل فتح‘ حاصل نہیں کی، وہ مکمل فتح جس کا وعدہ وزیر اعظم نتن یاہو نے اپنی عوام سے کیا تھا۔

آگے کیا ہو گا: شاید مزید گفت و شنید اور چند مشکل فیصلے۔

دو مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کے معاہدے کی ابتدائی تفصیلات

تصویر

مشرقی رفح سے فلسطینوں کی بڑی تعداد نے حالیہ دنوں میں نقل مکانی کی ہے
بی بی سی کے غزہ میں موجود نامہ نگار رشدی ابوالوف کے مطابق ایک سینیئر فلسطینی اہلکار (جو جنگ بندی کے معاہدے سے واقفیت رکھتے ہیں) کا کہنا ہے کہ اگر جنگ بندی کی شرائط پوری ہوتی ہیں تو حماس نے اتفاق کیا ہے کہ وہ ’اسرائیل مخالف سرگرمیاں‘ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کر دیں گے۔

اس جملے سے اشارہ ملتا ہے کہ حماس اپنی مسلح جدوجہد کے خاتمے پر غور کر رہی ہے۔ اس حوالے سے ابھی مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں اور یہ دو مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کے معاہدے کے اختتام پر ہی حاصل ہو سکیں گی۔

تفصیلات کے مطابق ہر مرحلہ 42 دن تک جاری رہے گا جس کا اختتام غزہ کی ناکہ بندی کے مکمل خاتمے کے ساتھ ہو گا۔

جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے میں حماس کی جانب یرغمال بنائی گئی اسرائیلی فوجی خواتین کی واپسی بھی شامل ہے جنھیں 50 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا، جن میں سے کچھ اسرائیلی جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

اس عرصے کے دوران اسرائیلی فوجی غزہ کے اندر موجود رہیں گے لیکن جنگ بندی کے نافذ ہونے کے 11 دنوں کے اندر اندر اسرائیل غزہ کی پٹی کے مرکز میں اپنی فوجی تنصیبات کو ختم کرنا شروع کر دے گا اور صلاح الدین روڈ اور کوسٹل روڈ سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ 11 روز بعد فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی کے شمال میں واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔

حماس نے اپنی سرکاری ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن التھانی اور مصری انٹیلیجنس کے وزیر عباس کامل سے ٹیلیفون پر بات کی اور انھیں جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں حماس کی تجاویز اور شرائط کی منظوری کے متعلق آگاہ کیا ہے۔

حماس کے رہنما طاہر النونو نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ معاہدے کی شرائط میں جنگ بندی، غزہ کی تعمیرِ نو اور بحالی کے علاوہ بے گھر افراد کی واپسی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی شامل ہے۔

ادھر اسرائیل کی دفاعی فوج آئی ڈی ایف نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس وقت رفح پر حملوں میں مصروف ہے۔ آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ اگرچہ حماس کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز اسرائیل کے مطالبات پر پورا نہیں اترتیں، تاہم اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے پر مزید بات چیت کے لیے ایک وفد بھیجنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

اس سے قبل اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈئینیل ہیگری نے ایک میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ اسرائیل، حماس کی جانب سے جنگ بندی کے لیے قبول کیے گئے معاہدے کا جائزہ لے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم ہر جواب اور ردعِمل کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہیں اور مذاکرت اور یرغمالیوں کی واپسی کے حوالے سے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

اس سے قبل خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایک اسرائیلی اہلکار کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ بندی کے لیے ’نرم شرائط‘ پر مبنی مصری تجاویز کو منظور کیا ہے جو اسرائیل کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔

خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اہلکار کا کہنا تھا کہ اس تجویز میں ایسے ’دور رس نتائج‘ شامل ہیں جن سے اسرائیل متفق نہیں ہے۔

ادھر وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی کے مطابق امریکی حکومت حماس کی جانب سے جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے کا ’جائزہ‘ لے رہی ہے۔

وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز بریفنگ کے آغاز میں کربی نے جاری جنگ بندی مذاکرات کے بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنے سے معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں ایسا کچھ بھی نہیں کہنا چاہتا جو اس عمل کو خطرے میں ڈال دے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ بائیڈن انتظامیہ جنگ بندی پر ’کام کرنا بند نہیں کرے گی۔‘

ایک نامہ نگار کے پوچھے جانے پر کربی نے اس بات پر بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ حماس معاہدے کے کن پہلوؤں پر متفق ہے۔

’معاہدے پر دستخط کیے بغیر وہ واپس نہ آئیں‘

تصویر

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا ہے کہ ملک کی جنگی کابینہ نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے رفع آپریشن جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اس سے قطع نظر کہ اسرائیل میں مظاہرین جنگ بندی کے معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئے تل ابیب کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

اسرائیلی یرغمالیوں کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ نے حکومتی مذاکرات کاروں کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ حماس کے ساتھ ’معاہدے پر دستخط کیے بغیر وہ واپس نہ آئیں۔‘

ادھر یروشلم میں بی بی سی کے سیکورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر نے اس پیش رفت پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے ثالثی زیادہ تر مصری قیادت میں ہوئی ہے جبکہ ان مذاکرات میں قطری حکام بھی شامل رہے ہیں۔

مصر کی سرحد غزہ سے ملتی ہے اور وہ خطے میں امن بحال کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ مصر نہیں چاہتا کہ تشدد اس کی سرحدوں تک پھیلے، اس لیے مصری حکومت اور مصری انٹیلیجنس کے حکام جنگ بندی کے معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔

حماس عسکری طور پر کافی حد تک ہوشیار رہی ہے کیونکہ اس کے پاس 128 اسرائیلی یرغمالی ہیں، جن میں سے کم از کم 34 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں تاہم حماس اب بھی اسرائیل سے اچھی سودے بازی کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

میں ہر رات یہاں یروشلم میں احتجاج کرنے والوں کو دیکھتا ہوں جو احتجاج کے دوران بینرز لہراتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ’انھیں گھر لے آؤ‘۔

Share.

Leave A Reply