بھارت میں عام انتخابات سے قبل گرفتار ہونے والے دہلی کے وزیر اعلیٰ اور نامور اپوزیشن لیڈر اروند کیجریوال کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
نامور اپوزیشن لیڈر اروند کیجریوال کو 21 مارچ کو طویل عرصے سے جاری بدعنوانی کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا تھا، وہ آئندہ انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مقابلے کے لیے اہم امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔
اروند کیجریوال کے خلاف یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے نجی کمپنیوں کو شراب کے لائسنس دینے کے دوران غیر قانونی ادائیگیاں کیں، 55 سالہ سیاستدان نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
تاہم اب گرفتاری کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں عبوری ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ملک میں جاری عام انتخابات میں اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت بھی دے دی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادار ےکی رپورٹ کے مطابق عدالت نے کہا ہے کہ ضمانت یکم جون تک لاگو ہے جس کے بعد انہیں دوبارہ حکام کے سامنے سرنڈر ہونا ہوگا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے ججز نے کہا کہ اروند کیجریوال کو عام انتخابات کے نتائج آنے سے دو دن قبل 2 جون کو سرنڈر کرنا ہوگا۔
عدالت نے کہا تھا کہ اروند کیجریوال کو رہائی کے بعد انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی جائے گی لیکن اس دوران انہیں سرکاری فرائض انجام دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اروند کیجریوال نے گزشتہ ماہ دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے ضمانت دینے سے انکار کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، بھارت کی فوکل مالیاتی تحقیقاتی ایجنسی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے عدالت میں ان کی ضمانت کی سخت مخالفت کی تھی۔
دوسری جانب مودی اور ان کی بھارتیا جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیاں صرف اپنا کام کر رہی ہیں اور حکومت ان پر اثر انداز نہیں ہو رہی ہے۔
جیل میں رہنے کے دوران اروند کیجریوال کی پارٹی نے کہا تھا کہ وہ جیل سے دہلی حکومت کے معاملات چلا رہے ہیں اور یہ بھی اعلان کیا کہ وہ جیل سے ہی الیکشن لڑیں گے۔
نامور اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری پر امریکا نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا جس پر بھارت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بھارت میں امریکی سفارت کار کو طلب کرلیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ اروند کیجریوال کے لیے ’منصفانہ، شفاف اور بروقت قانونی عمل‘ کو یقینی بنائے۔
اس سے قبل جرمنی نے اروند کیجریوال کی گرفتاری پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔