29 اپریل 1991 کی رات بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ میں کاکس بازار کے ساحل پر رہنے والوں کے لیے ایک خوفناک رات تھی۔
نصف شب تقریباً 12 بجے ایک طاقتور طوفان ساحل سے آ کر ٹکرایا جس کی رفتار 240 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ اس سے ساحل پر تقریباً 20 فٹ اونچی لہریں اٹھنے لگیں۔
اس دن دوپہر سے ہی گرج چمک کے ساتھ تیز ہوائیں چل رہیں تھیں جو طوفان کی آمد کا اشارہ دے رہی تھیں۔
22 سالہ جنت النعیم شیولی اپنے گھر میں تھیں جب رات کے 12 بجے کے قریب سیلابی پانی ان کے گھر میں داخل ہونے لگا، اس کے ساتھ تیز ہوا بھی چل رہی تھی۔
شیولی نے زندہ رہنے کی امید چھوڑ دی تھی۔
شیولی کہتی ہیں ’پورا گھر ہل رہا تھا۔۔۔ ہم تقریباً 20-25 لوگ تھے جن میں زیادہ تر بچے تھے۔ ہم سب خدا کو یاد کر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ میں اپنے گھر کے نیچے آ کر مرنے لگی ہوں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ اس دن مجھے احساس ہوا کہ موت کیا چیز ہوتی ہے۔
اس طوفان کی آمد سے سات دن قبل خلیج بنگال میں کسی انہونی کے ہلکے سے اشارے ملنے لگے تھے۔
سمریندر کرماکر، جو اب ریٹائرڈ ماہر موسمیات ہیں، 1991 میں ڈھاکہ میں موسمیاتی دفتر میں کام کر رہے تھے جب انھوں نے دیکھا کہ ہلکے دباؤ والا طوفان ایک طوقتور طوفان میں تبدیل ہو رہا ہے۔
23 اپریل کی صبح تک ہوا کا دباؤ ہلکا تھا۔۔۔ یہ بتدریج طاقتور بن رہا تھا کیونکہ یہ بحیرہ انڈمان اور جنوب مشرقی خلیج بنگال میں واقع تھا۔
25 اپریل کی صبح یہ ایک کم دباؤ والا طوفان بن گیا مگر پھر 27 اپریل کی صبح ایک بار پھر سے خطرناک طوفان میں تبدیل ہو گیا اور اسی روز آدھی رات تک ایک شدید طوفان بن چکا تھا۔
سمریندر کرماکر کہتے ہیں کہ 28 اپریل کی صبح 9 بجے کے قریب یہ ایک طاقتور طوفان بن گیا تھا۔
’میں جہاں جاتی وہاں صرف لاشیں ہی لاشیں نظر آتی تھیں‘
اس طاقتور طوفان میں تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس نے چٹاگانگ اور کاکس بازار کے وسیع سمندری ساحلوں پر تباہی مچا دی تھی۔
تقریباً ایک کروڑ لوگ بے گھر ہو گئے تھے اور ساحل پر بے شمار لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
شیولی کے مطابق طوفان کے اگلے دن انھوں نے گھر کے آس پاس جو مناظر دیکھے وہ انھیں بھول نہیں پائیں۔
شیولی کہتی ہیں ’میں صرف رونا ہی سن سکتی تھی۔ میں جہاں جاتی وہاں صرف لاشیں ہی لاشیں نظر آتی تھیں۔ ہمارے ساتھ والے گھر میں 30 لوگ مارے گئے۔‘
فضائیہ کے تقریباً 30-35 جنگی طیاروں کو بھی نقصان پہنچا
طوفان سے نہ صرف گھر تباہ اور جانور ہلاک ہوئے بلکہ اس نے بنیادی ڈھانچے اور مشینری کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔
فضائیہ کے زیادہ تر لڑاکا طیارے تباہ ہو گئے۔
اے کے ایم نورالہدیٰ، جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں، 29 اپریل 1991 کو ایک سارجنٹ ونگ کمانڈر تھے اور پتینگا، چٹاگانگ میں ایئر فورس کوارٹرز میں تعینات تھے۔
ان کے مطابق بحریہ اور فضائیہ کے کئی جنگی جہازوں کو نقصان پہنچا۔
طوفان کی شدت کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ ’حال ہی میں روس سے درآمد کیے گئے چار باکسنگ ہیلی کاپٹر سیلابی پانی میں سڑک پر تیر رہے تھے۔ ہیلی کاپٹروں کو پہلے ہینگر میں 500 گز کے فاصلے پر رکھا گیا تھا مگر پانی کے دباؤ اور ہوا کے باعث ہینگر گر گیا اور بحری جنگی جہاز کو نقصان پہنچا۔ اس سے فضائیہ کے تقریباً 30-35 جنگی طیاروں کو بھی نقصان پہنچا۔‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ساحل کے قریب ایک طاقتور طوفان کی وارننگ کے باوجود ہوائی جہاز اور بحری آلات کو حفاظت والے روٹ کی جانب کیوں نہیں موڑا گیا۔
فوج کے دونوں ونگز کا کروڑوں روپے کا سامان تباہ ہو گیا۔
اس طوفان میں تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار افراد کی ہلاکت سے دنیا حیران رہ گئی۔ متاثرین کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انھوں نے انتباہی پیغامات پر ٹھیک طرح سے دھیان نہیں دیا۔
دوسروں کا کہنا ہے کہ انتباہی پیغامات سننے کے باوجود انھوں نے انھیں سنجیدگی سے نہیں لیا۔
’کوئی امید نہیں تھی کہ لوگ اپنے گھر دوبارہ بنا پائیں گے‘
شیولی کہتی ہیں ’مختلف ایجنسیوں کے لوگ اشتہار بانٹ رہے تھے۔ وہ ساحلی علاقے کے لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کا کہہ رہے تھے لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔‘
اتنے سال بعد بھی لوگ اس طوفان کو نہیں بھول سکے۔
لاکھوں لوگ راتوں رات مہاجر بن گئے۔ بہت سے بچ جانے والوں کے لیے زندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔
ایک تو طوفان کی ہولناکی تھی اور دوسر اس کے بعد کے نتائج تھے۔
طوفان سے متاثرہ بڑے اضلاع میں خوراک اور پانی کی فراہمی ناکافی تھی۔ پینے کا صاف پانی نہ ہونے سے مختلف بیماریاں پھیل رہی تھیں۔
طوفان کے بعد بقا کی جنگ شروع ہو گئی۔
شیولی کہتی ہیں ’صاف پانی نہیں تھا۔ سیلاب کے بعد بہت سے لوگ ڈائریا سے مر گئے۔ کوئی امید نہیں تھی کہ لوگ زندہ رہیں گے اور اپنے گھر اور خاندان دوبارہ بنا پائیں گے۔‘
شیولی کی دادی طوفان کے بعد وفات پا گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرنے سے پہلے دادی نے ایک گلاس پانی پینا چاہا لیکن دادی کو پانی کا وہ گلاس تک نہیں ملا کیونکہ پینے کے صاف پانی کی شدید قلت تھی۔
شیولی کہتی ہیں ’میری دادی کو شدید اسہال تھا، لیکن پانی نہیں مل رہا تھا۔ میں انھیں پانی کہاں سے دیتی؟ وہ میٹھا پانی پینا چاہتی تھیں، انھوں نے مجھے کہا کہ تھوڑا پانی دو۔ میں نے جو پانی انھیں دیا وہ میٹھا نہیں تھا اور انھوں نے اسے پینے سے انکار کر دیا اور پھر دادی وفات پا گئیں۔‘
مختلف ممالک طوفان سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے آگے آئے۔ امریکی فوج نے ساحلی علاقوں میں لوگوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے آپریشن سی اینجل شروع کیا۔
آفت سے متاثرہ لوگوں کو طویل عرصے تک امدادی امداد پر انحصار کرنا پڑا۔ متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ امداد کافی نہیں تھی۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے شیولی کہتی ہیں ’بہت سے لوگ بے گھر تھے۔ کس کس کی مدد کی جاتی؟ لمبی لمبی لائنیں تھیں۔۔ کھانا چند گھنٹوں میں ختم ہونے کے باوجود لوگ کھانے کی امید لگائے بیٹھے ہوتے۔‘
آزاد بنگلہ دیش میں کسی قدرتی آفت میں اتنا بڑا جانی نقصان اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
1970 میں ایک طاقتور طوفان نے ساحلی ضلع میں تقریباً پانچ لاکھ افراد کی جان لے لی تھی۔ چٹاگانگ کاکس بازار کے لوگوں کو 1991 کے طوفان کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے نکلنے میں کئی سال لگے۔
اس طوفان کے بعد بنگلہ دیش کے ساحلی علاقے میں کئی پناہ گاہیں بنائی گئیں۔ اس کے علاوہ سمندری طوفانوں کے دوران ساحلی علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے نظام کو بھی مضبوط کیا گیا۔
طوفان کے وارننگ سگنلز کو ساحلی علاقوں میں لوگوں تک پہلے سے زیادہ مؤثر طریقے سے پہنچنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اس طوفان کے بعد سے بنگلہ دیش میں کسی قدرتی آفت میں ایک ساتھ اتنے لوگ کبھی نہیں مرے۔ اس طوفان کو دیکھنے والے شاید اس رات کی دردناکی کو کبھی نہ بھول سکیں۔