دبئی لیکس میں سامنے آنے والے نام جانے پہچانے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ تو پہلے بھی اس نوعیت کے اسکینڈلز کی زد میں رہ چکے ہیں۔
نوٹ: اس تحقیقی رپورٹ میں شائع کیے جانے والے ڈیٹا میں ٹیکس چوری اور مالیاتی جرائم کے شواہد موجود نہیں اور نہ ہی رہائشی تفصیلات، آمدنی کے ذرائع، کرائے کی آمدنی پر ٹیکس ادائیگی کی تفصیلات یا فروخت پر حاصل ہونے والے منافع جیسی معلومات شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں عوامی مفاد کے لیے صرف اعلیٰ سیاسی یا فوجی حکام سے منسلک جائیدادوں کے نام بتائے گئے ہیں۔
جیسا کہ توقع کی جاسکتی تھی، دبئی لیکس میں پاکستان کے متعدد منتخب سیاسی حکام اور پہلے بھی ایسے معاملات میں ملوث رہنے والی شخصیات کے نام نمایاں ہیں جوکہ 2022ء کے موسمِ بہار تک ان کی دبئی میں جائیدادوں کا احاطہ کرتی ہے۔ ان میں سے بہت سے نام جانے پہچانے ہیں، وہ لوگ بھی ہیں جن کا نام اس طرح کی لیکس میں سامنے آنا ان کے لیے کوئی نئی بات نہیں جبکہ کچھ تو اس سے پہلے بھی میگا مالیاتی اسکینڈلز کی زد میں رہ چکے ہیں۔
تاہم حیرت انگیز طور پر پاکستان کے کچھ خاندان (سیاسی اور کاروباری دونوں) جو دبئی میں اپنی جائیدادوں اور گھروں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، ان کے نام ان پراپرٹی لیکس میں شامل نہیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ڈیٹا اگرچہ مضبوط ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو گزشتہ اثاثوں کی تفصیلات ان میں موجود ہیں اور نہ ہی ان لیکس میں وہاں موجود پاکستانیوں کی خریدی گئی تمام جائیدادوں کی مکمل منظر کشی کی گئی ہے۔ جائیدادوں کے بہت سے مالکان بالخصوص وہ جنہوں نے کسی تیسرے فریق یا غیرمعروف کمپنی سے کی مدد سے جائیدادیں خریدیں، ان کے نام دبئی لیکس میں موجود نہیں۔
سیاسی دنیا کی اے کیٹیگری میں شمار کیے جانے والے صدر مملکت آصف علی زرداری کے تین بچوں میں سے دو قومی اسمبلی کے منتخب اراکین ہیں۔ بختاور بھٹو زرداری دبئی میں مقیم ہیں، جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کے نام پر چار جائیدادیں درج ہیں۔
تینوں بہن بھائی مشترکہ طور پر دو اپارٹمنٹس کے مالکان ہیں، ایک الصفا میں جبکہ دوسرا جمیرہ میں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمع کروائی گئی اپنے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں میں اپنے نام پر دو جائیدادیں ظاہر کی ہیں۔ (الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق ہر سال 31 دسمبر سے پہلے ہر رکنِ پارلیمان کو اپنے، اپنی اہلیہ اور زیرِ کفالت بچوں کے اثاثوں اور واجبات کے گوشوارے جمع کروانے ہوتے ہیں جیسا کہ گزشتہ مالی سال کے آخری روز کیا گیا۔)
بختاور بھٹو زرداری کے ریئل اسٹیٹ اثاثوں میں 23 مرینہ میں 4 بیڈرومز پر مشتمل پینٹ ہاؤس بھی شامل ہے جوکہ 88 منزلہ رہائشی اسکائے اسکریپر ہے جس کا شمار دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں ہوتا ہے۔ ناروے کے مالیاتی آؤٹ لیٹ ای 24 اور آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کے ذریعے حاصل کردہ لین دین کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ پراپرٹی 2014ء میں ایک کروڑ 15 لاکھ اماراتی درہم یا 31 لاکھ 30 ہزار 972 ڈالرز میں خریدی گئی تھی (یہ حساب موجودہ شرح مبادلہ کے مطابق کیا گیا ہے جہاں ایک ڈالر 3.6 اماراتی درہم کے برابر ہے)۔
دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ (ڈی ایل ڈی) سسٹم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پینٹ ہاؤس اب بھی بختاور بھٹو کی ملکیت میں ہے جسے کرائے پر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں مقیم نہ ہونے کی وجہ سے بختاور بھٹو زرداری بیرون ملک کرائے کے مکان سے آنے والی آمدنی پر ٹیکس ادا کرنے کی پابند نہیں۔
جعلی اکاؤنٹس کیس کے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں 23 مرینہ پراپرٹی کا ذکر کیا گیا تھا جس کا تعلق 29 ’مشکوک‘ اکاؤنٹس سے تھا جن کے ذریعے 35 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نے جنوری 2018ء میں فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کو دیے گئے اپنے اثاثوں کی تفصیلات میں ظاہر کیا کہ ٹیکس سال 2014ء میں مرینہ 23 کی جائیداد انہیں بطور تحفہ ملی تھی جس کے بعد 2016ء میں انہوں نے یہی جائیداد تحفے میں دے دی۔
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ کراچی کی کاروباری شخصیت عبدالغنی مجید نے ٹیکس سال 2014ء میں مرینہ 23 کی مالیت کے برابر رقم تحفہ میں دینے کو اپنے گوشوارے میں ظاہر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں۔ ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ عبدالغنی مجید کا ایمریٹس ہلز میں 5 بیڈرومز پر مشتمل بنگلہ ہے جو انہوں نے 2014ء میں خریدا تھا۔
اس تصویر میں اسکائے اسکریپر عمارتوں اور دیگر رہائشی عمارتوں کو دکھایا گیا ہے جن میں کچھ فاصلے پر واقع 23 مرینہ ٹاور بھی شامل ہے—تصویر: اولے مارٹن وولڈ
یہ واضح رہے کہ 17 صفحات پر مشتمل جے آئی ٹی رپورٹ کے ردعمل میں آصف علی زرداری نے خود سے منسوب کسی بھی غلط کام کی تردید کی۔ انہوں نے جواباً کہا، ’گواہان کی جانب سے ریکارڈ کیے جانے والے بیانات اور دستاویزات ہمیں فراہم نہیں کی گئیں۔ جے آئی ٹی کو سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے‘۔
او سی سی آر پی نے صدر آصف علی زرداری اور ان کے بچوں سے رابطہ کیا اور ان سے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی۔ جواباً آصفہ بھٹو زرداری نے اپنے وکلا کے ذریعے کہا کہ دبئی میں ان کی زیِرِ ملکیت تمام اثاثے ’پاکستان میں متعلقہ حکام بشمول ای سی پی کو باضابطہ طور پر ظاہر کیے گئے ہیں‘۔
ڈان کے سوالات کے جواب میں عبدالغنی مجید کے وکلا نے کہا کہ ان کے مؤکل نے ایمریٹس ہلز میں اپنے بنگلے کی تمام تفصیلات ایف بی آر میں جمع کروائی ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں عائد الزامات کے حوالے سے وکلا نے تردید کی کہ عبدالغنی مجید کی ملکیت میں کبھی بھی 23 مرینہ کی پراپرٹی نہیں تھی، اور ’لہٰذا رہا سوال اسے تحفے میں دینے کا، تو یہ غلط ہے۔ آج کی تاریخ تک جے آئی ٹی کی رپورٹ تخیل پر مبنی ہے جو اس جائیداد سے متعلق الزامات تک محدود نہیں‘۔
نام نہاد ’جعلی اکاؤنٹس کیس‘ کی جے آئی ٹی رپورٹ سے جڑے مزید سیاسی شخصیات کے نام بھی دبئی لیکس میں جائیدادوں کے مالکان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان میں غلام عباس زرداری اور حامد سموں بھی شامل ہیں۔ ان کے نام پر دبئی میں دو جائیدادیں ہیں جن میں ایک الفرجان میں 5 بیڈرومز پر مشتمل بنگلہ اور پام جمیرہ میں 3 بیڈرومز پر مشتمل ایک اپارٹمنٹ شامل ہے۔ ان دونوں جائیدادوں کا ذکر بھی جے آئی ٹی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
او سی سی آر پی اور ای 24 سے حاصل کردہ جائیدادوں کی خرید اور کرائے پر دینے کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ یہ بنگلہ 2014ء میں 13 لاکھ 60 ہزار ڈالرز میں خریدا گیا تھا جس سے 2015ء اور اس سال کے آخر تک معاہدے کے اختتام پر بننے والے کرائے کی آمدنی 3 لاکھ 29 ہزار 500 ڈالرز ہوگی۔ ڈان نے تصدیق کی ہے کہ غلام عباس زرداری اب بھی الفرجان میں واقع اس بنگلے کے مالک ہیں جبکہ اپارٹمنٹ کو کچھ ماہ قبل فروخت کردیا گیا تھا۔
دوسری جانب حامد سموں کا نام 2019ء کے اواخر اور 2020ء کے آغاز میں حدیق شیخ محمد بن راشد کے پوش رہائشی علاقے میں ایک اپارٹمنٹ کے مالک کے طور پر درج ہیں جوکہ 18 لاکھ 90 ہزار ڈالرز میں خریدا گیا اور اسی سال اسے فروخت بھی کردیا گیا تھا۔ اس وقت وہ گلوبل گالف ریزیڈینس 2 میں دو بیڈرومز پر مشتمل اپارٹمنٹ کے مالک ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں مزید الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ڈرائیور ہیں اور ان کا کوئی اور ’ذریعہ آمدنی نہیں‘۔ غلام عباس زرداری اور حامد سموں سے درخواست کی گئی کہ وہ اس معاملے مین تبصرہ کریں لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جے آئی ٹی کے الزامات کے نتیجے میں کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ البتہ ملک میں کالے دھن کی سب سے بڑی تحقیقات میں ایچ اینڈ ایچ ایکسچینج پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابق صدر حاجی ہارون کا نام نمایاں طور پر سامنے آیا جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ستمبر 2004ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مبینہ طور پر ملک سے 17 لاکھ 20 ہزار ڈالرز کی کرنسی برآمد کرنے کی کوشش کرنے پر ان کی ایکسچینج کمپنی کا لائسنس معطل کردیا تھا۔
ریئل اسٹیٹ کے ٹاپ 5 سرمایہ کاروں میں سے ایک
2019ء کے اواخر اور 2020ء کے اوائل میں کم از کم 250 جائیدادوں کے مالک کے طور پر حاجی ہارون کا نام تفصیلات میں سامنے آیا جس کی بنا پر وہ اس وقت دبئی میں جائیدادیں رکھنے والے ٹاپ 5 شخصیات میں شامل تھے۔ انہوں نے 2022ء کے آغاز میں متحدہ عرب امارات میں 2 بنگلے خریدے۔ حاجی ہارون نے سیلیکون ہائٹس نامی 9 منزلہ رہائشی عمارت میں بھی سرمایہ کاری کی جس کی تعمیر 2011ء میں مکمل ہوئی۔ اس عمارت کا ہر یونٹ ایک لاکھ 14 ہزار 349 ڈالرز اور 3 لاکھ 13 ہزار 99 ڈالرز میں فروخت ہوا۔
انہوں نے 2019ء کے اواخر اور 2020ء کے آغاز میں دبئی میں ایک اور اہم سرمایہ کاری کی۔ یہ ڈیونز ولیج اپارٹمنٹ کمپلیکس کی بلڈنگ 13 کے 42 یونٹ کی صورت میں تھی۔ اس کمپلیکس میں ایک یونٹ اوسطاً ایک لاکھ 22 ہزار 517 ڈالرز میں فروخت ہوتا ہے۔ تاہم یہ تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ وہ حالیہ دنوں میں ان کی زیرِ ملکیت کتنی جائیدادیں ہیں۔
حاجی ہارون کا نام ایگزیٹ کہانی میں بھی سامنے آیا تھا جوکہ دنیا بھر میں جعلی ڈگریوں اور سند کی فروخت کا ایک بہت بڑا اسکینڈل تھا۔ تاہم اس اسکینڈل میں حاجی ہارون پر عائد الزامات کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ان پر عالمی پابندیاں بھی عائد نہیں کی گئیں۔ جولائی 2015ء میں حاجی ہارون کو سیاسی اور کاروباری شخصیات کی بیرون ملک منی لانڈرنگ میں مدد کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اسی سال مبینہ طور پر انٹیلی جنس حکام کی جانب سے وہ پُراسرار طور پر لاپتا ہوگئے اور تقریباً 11 ماہ بعد وہ منظرعام پر آئے۔ ان کی گمشدگی پر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔
2018ء میں جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات میں حاجی ہارون کا نام ایک بار پھر سامنے آیا۔ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں الزام عائد کیا کہ انہوں نے فنڈز کی منتقلی کے لیے متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی کا سہارا لیا۔ یہ معاملہ اب بھی ختم نہیں ہوا ہے۔ تمام الزامات کے باوجود وہ اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن اس حوالے سے حاجی ہارون نے تبصرے سے گریز کیا۔
منی لانڈرنگ کیس اور خانانی خاندان
تاہم منی لانڈرنگ کی تاریخ میں پاکستان میں مقیم کرنسی تاجروں خانانی اور کالیا انٹرنیشنل کے ذریعے چلایا جانے والا حوالہ آپریشن، اپنی نوعیت کا سب سے بڑا آپریشن سمجھا جاتا ہے۔ ایک نیوز رپورٹ نے اسے عالمی مالیاتی اسکینڈل ’گولڈ مین سیک‘ کے برابر قررا دیا۔ اس میں منظم جرائم کے گروہوں بشمول منشیات کے کارٹیلز اور پُرتشدد دہشت گرد تنظیموں کے لیے غیرقانونی فنڈز کی منتقلی کا تخمینہ 14 ارب ڈالرز سے لے کر 16 ارب ڈالرز سالانہ کے درمیان تھا۔ تنظیم کے بین الاقوامی ترجمان الطاف خانانی کو سزا سنائی گئی اور انہوں نے تقریباً چھ سال امریکی جیل میں گزارے، ساتھ ہی امریکا نے انہیں اپنے بیٹے عبید خانانی اور بھتیجے حذیفہ خانانی کے ہمراہ منی لانڈرنگ کے الزام میں بلیک لسٹ کردیا تھا۔
دبئی جیسے شہر میں جہاں نقد رقم سے بھرے تھیلوں کے ذریعے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری پر سوالات اٹھتے ہیں وہاں خانانی خاندان بڑی تعداد میں ریئل اسٹیٹ جائیدادوں کے مالکان ہیں۔ عبید خانانی کے نام پر 30 جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جبکہ 2020ء کے آغاز میں ان سمیت ان کا پورے خاندان کی ملکیت میں 85 جائیدادیں تھیں جن میں ایک درجن بنگلے بھی شامل ہیں۔
تادمِ تحریر عبید خانانی کےنام پر کتنی جائیدادیں ہیں، یہ واضح نہیں ہوسکا ہے لیکن ڈان کی ابتدائی تحقیقات میں سامنے آیا کہ خانانی خاندان کے ممبران عبید خانانی، انیس خانانی اور عبدالقادر خانانی کی ملکیت میں کم از کم 7 جائیدادیں ہیں۔
اسی منی لانڈرنگ آپریشن کی زد میں عاطف عبدالعزیز پولانی بھی آئے۔ درحقیقت خانانی خاندان سمیت ان کا نام بھی امریکا کی بلیک لسٹ میں شامل تھا کیونکہ ’انہوں نے بطور ’ایجنٹ‘ الطاف خانانی کی تنظیم کے لیے کام کیا‘۔ ان کے نام پر بھی دبئی میں 4 جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن میں 4 بنگلے شامل ہیں۔
صنعت کار اور پی پی پی کے رکنِ قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ کےنام پر بھی دو درجن سے زائد جائیدادیں ہیں جن میں سے زیادہ تر ان کی اہلیہ اور بھائی اشتیاق بیگ کی مشترکہ ملکیت میں ہیں۔ ڈان نے تصدیق کی ہے کہ ان کی کم از کم 15 جائیدادیں جن میں ایک سے تین کمروں پر مشتمل اپارٹمنٹس شامل ہیں، ڈی ایل ڈی کے مطابق اس سال کے آغاز میں مرزا اختیار بیگ کی ملکیت میں تھے۔
یہ اپارٹمنٹس جو بدستور ان کی ملکیت میں ہیں، ان کی قیمت ایک لاکھ 37 ہزار 915 ڈالرز سے 3 لاکھ 29 ہزار 430 ڈالرز کے درمیان ہے۔ دونوں بھائی بیگ گروپ کے چیئرمین اور نائب چیئرمین ہیں جو خود انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیکسٹائلز، توانائی کی پیداوار اور ریئل اسٹیٹ کی ایک کثیرالجہتی کمپنی ہے۔ ہمارے سوالات کے جواب میں مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ ’میں نے اپنی کمپنی اور اثاثوں کی تفصیلات اپنے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کی ہے اور میں کرائے کی آمدنی پر ٹیکس بھی ادا کرتا ہوں‘۔
لاکھوں ڈالرز کا بنگلہ
وفاقی وزیرداخلہ اور سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن رضا نقوی کی اہلیہ وردا اشرف کا نام بھی دبئی لیکس میں مہنگی جائیدادوں کی مالکان کی فہرست میں شامل ہے۔ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ 2022ء کے موسمِ بہار تک وردا اشرف عریبین رینچس پالما کمیونٹی میں 5 بیڈرومز پر مشتمل بنگلے کی مالکن تھیں۔ رقم کی منتقلی کے ڈیٹا کے مطابق یہ بنگلہ ایک پوش رہائشی ریئل اسٹیٹ میں 2017ء میں 11 لاکھ 80 ہزار ڈالرز ادا کرکے خریدا گیا جسے 2023ء میں 12 لاکھ 30 ہزار ڈالرز میں فروخت کردیا گیا۔
ڈی ایل ڈی سسٹم وردا اشرف کی ملکیت میں اب بھی جائیداد بتاتا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں اگر کسی جائیداد کی مالک ہیں تو وہ کون سی ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے اعتراف کیا کہ بنگلہ ان کی ملکیت میں تھا جو انہوں نے اپنی سیونگز سے خریدا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بنگلہ 2023ء میں فروخت کر دیا تھا جس کی فروخت کی رقم ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے تصدیق کی کہ اب بھی دبئی میں ان کی ملکیت میں ایک جائیداد ہے جو انہوں نے جنوری 2024ء میں خریدی تھی۔ ڈان کی جانب سے بھیجے کیے سوالات کے جواب میں محسن نقوی کی اہلیہ نے کہا کہ حال ہی میں خریدی گئی پراپرٹی کی تفصیلات حالیہ ٹیکس سال میں ظاہر کریں گی اور الیکشن کمیشن میں بھی اس کے گوشوارے جمع ہوں گے۔
سندھ کے امیر ترین رکن اسمبلی اور صوبائی وزیراطلاعات شرجیل انعام میمن اور ان کی اہلیہ کا نام بھی دبئی پراپرٹی لیکس میں سامنے آیا جن کے نام پر 5 جائیدادیں ہیں۔ ڈیٹا کے مطابق شرجیل میمن کی اہلیہ کے نام پر 3 جائیدادیں ہیں جبکہ خود شرجیل میمن کے نام پر 2 اپارٹمنٹس ہیں۔ آج بھی برلنگٹن ٹاور میں واقع ایک آفس شرجیل میمن کی اہلیہ (ایک اور شخص کی شراکت سے) کے نام پر ہے جو انہوں نے 2018ء میں خریدا تھا۔ اس کے علاوہ 2012ء میں انہوں نے دی میڈوس میں 4 بیڈرومز پر مشتمل بنگلہ 11 لاکھ 70 ہزار ڈالرز میں خریدا تھا جس کی موجودہ مالیت 25 لاکھ ڈالرز سے 35 لاکھ ڈالرز کے درمیان ہے، تاہم فاؤنٹین ویو میں ان کی اہلیہ کے نام پر تیسرا اپارٹمنٹ فروخت ہوچکا ہے۔
2015ء میں خریدا گیا 3 بیڈرومز کا اپارٹمنٹ آج بھی شرجیل میمن کی ملکیت میں ہے جس سے 2023ء تک کرائے کی مد میں تقریباً 2 لاکھ 45 ہزار 36 ڈالرز کی رقم حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ صوبائی وزیر اطلاعات کے نام پر ایک کمرے کا اپارٹمنٹ بھی ہے جو 2014ء میں خریدا گیا تھا اور اس سے کرائے کی مد میں ایک لاکھ 16 ہزار 823 ڈالر کی آمدن ہوچکی ہے۔ شرجیل میمن نے مالی سال 2020ء میں اپنے اثاثوں میں ان جائیدادوں کی ملکیت ظاہر کی تھی۔
ڈان کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں صوبائی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ’اندرون اور بیرون ملک موجود ہماری تمام جائیدادوں اور ان سے حاصل ہونے والی آمدن پاکستان کے قوانین کے مطابق ظاہر کی جاچکی ہیں جبکہ ان تمام جائیدادوں کی ملکیت اور ان سے حاصل ہونے والی آمدن کی تفصیلات ایف بی آر میں جمع کروا چکے ہیں اور غیرملکی اثاثوں کی ملکیت اور آمدن سے متعلق قوانین کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی بھی کی گئی ہے‘۔
دبئی پراپرٹی لیکس میں اویس مظفر ٹپی اور ان کی اہلیہ کے نام 2 جائیدادیں سامنے آئیں جوکہ کسی بھی پاکستانی کی دبئی میں موجود مہنگی ترین اثاثے ہیں۔ ڈان نے تصدیق کی ہے کہ اویس مظفر کی اہلیہ کے نام پر دبئی ہلز اسٹیٹ کے ویدا ریزیڈینس میں دو کمروں کا اپارٹمنٹ ہے جو 2015ء میں خریدا گیا تھا اور 2019ء سے 2024ء تک کرائے کی مد میں یہاں سے ایک لاکھ 41 ہزار 792 ڈالرز کی رقم حاصل کی گئی۔ اس جوڑے کے پاس محمد بن راشد ڈسٹرکٹ ون محلے میں پانچ بیڈ رومز پر مشتمل بنگلہ تھاجو ان کی مشترکہ ملکیت میں تھا تاہم یہ بنگلہ چند ماہ پہلے فروخت کیا جاچکا ہے۔ ڈیٹا کے مطابق یہ بنگلہ 2015ء میں 31 لاکھ 70 ہزار ڈالر کی ادائیگی کے بعد خریدا گیا اور 2024ء میں اسے 55 لاکھ 80 ہزار ڈالر میں فروخت کردیا گیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا نام بھی دبئی لیکس میں شامل ہیں۔ ڈان کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے تصدیق کی کہ وہ دبئی میں ایک چھوٹے بیڈروم پر مشتمل اپارٹمنٹ کے مالک ہے جو 2002-2003ء میں جلاوطنی کے دوران ذاتی سرمایہ کاری کے ذریعے 2 لاکھ 99 ہزار 99 اماراتی درہم ادا کرکے خریدا گیا تھا’۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اوورسیز پاکستانی ہونے کی حیثیت سے انہیں ٹیکس گوشوارے جمع کروانے سے استثنیٰ حاصل ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے احسان الحق باجوہ اپنے اثاثوں پر نادم نہیں بلکہ انہوں نے ایکس پر اپنی بائیو میں لکھا ہوا ہے، ’اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان کے امیر ترین رکن پارلیمنٹ، سابق ایم پی اے اور بہاولنگر سے ممبر رکنِ قومی اسمبلی‘۔
ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بلاشبہ 5 ارب 46 کروڑ روپے کے اثاثوں کے ساتھ امیر ترین رکنِ پارلیمان ہیں جن میں بیرون ملک 4 ارب 58 کروڑ کے اثاثے بھی شامل ہیں۔ وہ دبئی پراپرٹی لیکس میں 2020-2022ء کے دوران درجنوں جائیدادوں کے مالک کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ڈان جنوری2024ء تک اس بات کی تصدیق کرسکتا ہے کہ وہ ناد الشیبا فرسٹ میں ایک بنگلے کے مالک ہیں جو اگست 2016ء میں 10 لاکھ 8 ہزار ڈالرز میں خریدا گیا تھا۔ انہوں نے اپریل 2011ء میں ایمریٹس گارڈنز میں ایک بیڈروم کا اپارٹمنٹ ایک لاکھ 84 ہزار 749 ڈالرز میں خریدا جبکہ ایمریٹس گارڈنز میں اگلے ہی دن احسان الحق باجوہ نے ایک ایک بیڈروم پر مشتمل دو اپارٹمنٹس تقریباً ایک لاکھ 84 ہزار ڈالر میں خریدے تھے۔
احسان الحق باجوہ کے مالی سال 2020ء کے اثاثوں میں انہوں نے دبئی میں 9 جائیدادوں کی ملکیت ظاہر کی جو تقریباً 36 ارب 15 کروڑ روپے میں خریدی گئی۔ دبئی میں ان کا کاروباری سرمایہ 4 ارب 90 کروڑ روپے ہے اور متحدہ عرب امارات میں واجبات کو چھوڑ کر ان کے اثاثوں کی کُل مالیت 4 ارب روپے سے زائد ہے۔ ڈان نے اس معاملے میں ان سے تبصرے کی درخواست کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
دبئی پراپرٹی لیکس کے مطابق پاکستان کے غریب ترین صوبے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ سردار ثنااللہ زہری، ان کی اہلیہ اور بیٹی ازبل زہری نے دبئی کے لگژری ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ سردار ثنااللہ زہری 2024ء کے عام انتخابات میں ضلع خضدار سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے اور ان کی اہلیہ خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں۔
رہائشی اسکائے اسکریپر
لیک ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ ثنااللہ زہری کی اہلیہ کے نام پر محمد بن راشد المکتوم سٹی ڈسٹرکٹ ون میں 6 بیڈ رومز پر مشتمل دو منزلہ بنگلہ تھا۔ یہ رہائشی علاقہ اپنے کرسٹل لاگونز کی وجہ سے جانا جاتا ہے جوکہ دنیا میں انسانوں کی جانب سے بنایا گیا سب سے بڑی مصنوعی دریا ہے جس کا رہائشی اپنے گھروں سے نظارہ کرسکتے ہیں۔ یہ بنگلہ 2018ء میں 40 لاکھ ڈالرز میں خریدا گیا جبکہ 2023ء میں 62 لاکھ ڈالرز میں اسے فروخت کردیا گیا۔
2019ء سے 2022ء کے درمیان اس مکان سے 5 لاکھ ڈالرز سے کچھ زائد کا کرایہ موصول ہوا۔ ثنا اللہ زہری کی اہلیہ اس وقت اسکائے اسکریپر رہائشی عمارت 23 مرینہ میں 3 بیڈ رومز پر مشتمل اپارٹمنٹ کی مالکن ہیں جسے 2020ء میں 3 لاکھ 83 ہزار 882 ڈالرز میں خریدا گیا تھا۔ ثنااللہ زہری اور ان کی بیٹی برج خلیفہ کے علاقے میں دی لوفٹس سینٹرل پروجیکٹ میں 2 بیڈ رومز والے دو اپارٹمنٹس کے مالک ہیں۔ ایک اپارٹمنٹ 2014ء میں خریدا گیا جبکہ دوسرا اس کے اگلے سال سب نے بتایا کہ ثنااللہ زہری نے ان دو جائیدادوں کے لیے 15 لاکھ ڈالر ادا کیے۔ تاہم ثنا اللہ زہری نے اس معاملے پر ڈان کے رابطے کے باوجود تبصرہ نہیں کیا۔
اسی ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک اور سردار اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک دھڑے کے سربراہ سردار اختر مینگل کے نام پر بھی ایک بیڈروم کا اپارٹمنٹ ہے جو انہوں نے 2009ء میں خریدا تھا۔ یہ پراپرٹی کم از کم 2013ء سے کرائے پر ہے اور آج اس کی قیمت تقریباً 3 لاکھ 64 ہزار 831 ڈالرز ہوچکی ہے۔ 2020ء کے اپنے گوشوارے میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ یہ اپارٹمنٹ انہیں تحفے میں دیا گیا، اور جس کی جانب سے دیا گیا اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
ورلڈ بینک کی 2023ء کی رپورٹ کے مطابق ضلع خضدار میں غربت کی شرح 71.5 فیصد ہے۔
پراپرٹی ڈیٹا لیک میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما اور سینیٹر فیصل واڈا سے کے نام پر دو جائیدادیں ہیں۔ لیکن جنوری 2024ء تک ان کے نام 2013ء میں دبئی مرینہ کے اسکن مرینہ ٹاور میں خریدا گیا ایک اسٹوڈیو اپارٹمنٹ تھا اور اس کے علاوہ اٹلانٹک ٹاور ون میں ایک یونٹ کے بھی ان کی ملکیت میں تھا جو 2014ء میں خریدا گیا تھا اور ڈی ایل ڈی سسٹم میں یہ ان کی بیٹی کی ملکیت ہے۔
لیک ہونے والے اعداد و شمار میں، سینیٹر فیصل واڈا کی بیٹی 2020-2022ء کی مدت کے لیے ایک دوسری پراپرٹی کی بھی مالکن رہی ہیں لیکن فی الحال یہ پراپرٹی ان کی ملکیت میں نہیں ہے۔ فیصل واڈا نے دبئی کے اٹلانٹک ٹاور میں ایک اپارٹمنٹ، ملائیشیا کے ایک ریزورٹ میں 2 یونٹس اور برطانیہ میں متعدد جائیدادوں کی ملکیت کو ظاہر کیا ہے جن میں 20-19 ہائیڈ پارک پیلیس، 292 ایلگین ایونیو اور ایڈگ ویئر روڈ کے قریب 177 کواڈرینگل ٹاور شامل ہیں۔
ہاتھ سے لکھے گئے اپنے گوشوارے میں ان اثاثوں کی قیمتیں پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ سوالات کے جواب میں فیصل واڈا نے کہا کہ وہ اور ان کا خاندان پاکستان سے باہر متعدد جائیدادوں کے مالک ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ ’کونسی مخصوص جائیداد‘ پر سوال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی جائیدادیں اور آمدنی ٹیکس حکام کے پاس ڈیکلیئر کی جاتی ہے اور کاغذات نامزدگی کے ساتھ انہیں ظاہر بھی کیا جاچکا ہے۔
دبئی مرینہ میں موجود اسکائے اسکریپرز اور رہائشی عمارتیں—تصویر: اولے مارٹن وولڈ
20 لاکھ ڈالر زکا اپارٹمنٹ
دبئی لیکس کے مطابق سابق وزیراعظم و سابق وزیر خزانہ شوکت عزیز اور ان کی اہلیہ دبئی میں 2 جائیدادوں کے مالکان ہیں۔ ڈی ایل ڈی ڈیٹا سے سامنے آیا کہ ان میں سے اپارٹمنٹ اب بھی ان کی ملکیت میں ہے۔ ستمبر 2023ء تک وہ دبئی کے برج وسٹا ٹاور میں 3 بیڈ رومز کے ایک اپارٹمنٹ کے مالک ہیں، اس پراپرٹی کی موجودہ مالیت تقریباً 20 لاکھ ڈالرز ہے جسے 2013ء میں 13 لاکھ 30 ہزار ڈالرز میں خریدا گیا تھا۔
2019ء سے 2024ء تک ای 24 اور او سی سی آر پی کا کرائے کی آمدنی کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ اس اپارٹمنٹ سے تقریباً ڈھائی لاکھ ڈالرز کی آمدنی ہوئی۔ ان کی ایک اور جائیداد لیکس ہیٹن II میں واقع ہے جسے 2010ء میں 22 لاکھ ڈالرز میں خریدا گیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا یہ اپارٹمنٹ اب بھی ان کی ملکیت میں ہے یا نہیں۔ ہمارے رابطہ کرنے پر شوکت عزیز نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے مالک اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کا خاندان بھی دبئی لیکس میں نمایاں ہے۔ ان کی اہلیہ بینا ریاض 2019ء کے اواخر اور 2020ء کے اوائل میں الوارثان کے علاقے میں ایچ ڈی ایس سن اسٹار بلڈنگ میں ایک اور 2 بیڈ روم والے درجنوں اپارٹمنٹس کے مالک کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ تاہم یہ اپارٹمنٹس فروخت ہوچکے ہیں۔ بینا ریاض بحریہ ٹاؤن کی ڈائریکٹر بھی ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے 2018ء میں کراچی میں ہزاروں ایکڑ زمین کے غیر قانونی قبضے میں ملوث پایا تھا۔
اعلیٰ عدالت نے نیب کو میگا اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ نیب نے اپنے نتائج میں 34 افراد کو ملزم قرار دیا جن میں بینا ریاض، ان کے بیٹے احمد علی ریاض اور داماد زین ملک شامل تھے۔ تاہم عدالت عظمیٰ کے 2018ء کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے قائم بینچ نے حکم دیا کہ فی الحال ملزمان کے خلاف کوئی ریفرنس دائر نہ کیا جائے۔ اس نے بحریہ ٹاؤن کو 16 ہزار 869 ایکڑ اراضی کے واجبات کے طور پر اقساط میں 460 ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا تھا جو اس وقت تقریباً 3 ارب ڈالرز بنتے تھے۔ نومبر 2023ء میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن شیڈول کے مطابق اقساط کی ادائیگی نہیں کررہا۔
احمد علی ریاض اور زین ملک دونوں 2020ء کے دوران دبئی ریئل اسٹیٹ کے لسٹڈ مالکان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ علی ریاض اس وقت کم از کم 7 جائیدادوں کے مالک ہیں جن میں زیادہ تر دکانیں اور دفتری مقامات ہیں۔ ان کی 2 نابالغ بیٹیاں اس وقت جمیرہ پارک میں 2 جائیدادوں کی مالکن ہیں اور ان کی بہن پشمینہ ملک دبئی اسپورٹس سٹی میں ایک رہائشی یونٹ کی مالکن ہیں جو 2015ء میں خریدی گئی تھی۔ ڈان کے رابطہ کرنے پر علی ریاض اور بینا ریاض نے جواب نہیں دیا۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے صاحبزادے سعد صدیق باجوہ کا نام دبئی لیکس میں سامنے آیا ہے۔ ایک میڈیا پارٹنر کے ساتھ شیئر کیے گئے تفصیلی جواب میں علی اقبال باجوہ نے تصدیق کی کہ وہ سٹی واک، دبئی کی بلڈنگ 5 میں ایک اپارٹمنٹ کے مالک ہیں اور ان کا یہ اپارٹمنٹ فی الحال گروی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ اپارٹمنٹ ابتدائی طور پر میرے بھائی سعد صدیق باجوہ نے فروری 2020ء میں مشرق بینک دبئی کے ساتھ مورگیج کے ذریعے خریدا تھا۔ دسمبر 2020ء میں یہ اپارٹمنٹ میرے نام پر منتقل کردیا گیا اور تب سے یہ میری ملکیت میں ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جائیداد ان کے بھائی کے ایف بی آر کے ساتھ 2019-20ء کے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی تھی اور چونکہ یہ جائیداد 2020ء کے دوسرے ششماہی حصے میں ان کے نام منتقل ہوئی اس لیے وہ 2020-21ء سے ایف بی آر کے ساتھ اپنے ٹیکس گوشواروں میں اسے ظاہر کر رہے ہیں۔
دیگر اہم شخصیات جن کے نام دبئی لیکس میں سامنے آئے ہیں ان میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی، رکنِ قومی اسمبلی عامر علی مگسی، رکنِ صوبائی اسمبلی شیخ ایم مغیری، فرحت شہزادی عرف فرح گوگی، سابق رکنِ قومی اسمبلی سردار خان چانڈیو، سابق وزیر ماروی میمن، لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل مظفر (این ایل سی اسکینڈل)، انسپکٹر جنرل آئی جی پولیس آزاد جموں کمشیر تاجک سہیل عزیز اور میڈیا ہاؤس کے مالک سلمان اقبال شامل ہیں۔