’آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں‘، نیب ترامیم کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی

Pinterest LinkedIn Tumblr +

سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی جس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا، وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے۔

یاد رہے کہ مقدمے کی سماعت براہ راست نشر نہیں کی جارہی اور اس کی وجہ بھی بیان نہیں کی گئی ہے، واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت براہ راست نشر کی گئی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ آپ آصل کیس میں وکیل تھے، آپ کے نہ آنے پرمایوسی تھی، ہم آپ کے مؤقف کوبھی سننا چاہیں گے، کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ اس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تمام وکلا سے سینئر ہیں۔

بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے۔

اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اونچی آواز میں دلائل دیں تاکہ ویڈیو لنک پر موجود بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواست سماعت کے لیے منظور ہوئی؟ وکیل وفاقی حکومت نے بتایا کہ جی اسے قابل سماعت قراردے دیا گیا تھا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ وکیل نے بتایا کہ جی میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترمیم کیس پر ہوئی سماعت کا حکم نامہ طلب کر لیا۔

حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ جولائی 2022 کو نیب ترامیم کے خلاف پہلی سماعت ہوئی، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کل کتنی سماعتیں ہوئیں ہیں؟ وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ کل 53 سماعتیں ہوئیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے دریافت کیا کہ اتنا طویل عرصے تک کیس کیوں چلا؟ کیا آپ نے کیس کو طول دیا؟

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا جی زیادہ وقت دلائل میں درخواست گزار نے لیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 1999 میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مارشل لا کے فوری بعد ایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواست کب دائر ہوئی؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست 4 جولائی 2022 کو دائر ہوئی، سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولائی 2022 کو لگا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ مرکزی کیس پر اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا تھا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ 2022 کا پورا سال درخواست گزار کے وکیل نے دلائل میں لیے، جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ نیب کا پورا آرڈیننس بنانے میں کتنا عرصہ لگا تھا؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مشرف نے 12 اکتوبر کو اقتدار سنبھالا اور دسمبر میں آرڈیننس آچکا تھا، مشرف نے 2 ماہ سے کم عرصے میں پورا آرڈیننس بنا دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا؟ مخدوم علی خان آپ کیس میں موجود تھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ یہ تو بڑا تعجب ہے کہ نیب ترامیم کیس 53 سماعتوں تک چلایا گیا۔

ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟ عدالت
چیف جسٹس نے مزید دریافت کیا کہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسےقابل سماعت ہوا؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا۔

بعد ازاں مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا۔

عمران خان نے شکایت کردی
دوران سماعت عمران خان نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلا لیا اور اپنے چہرے پر تیز روشنی پڑنے کی شکایت کی، شکایت کرنے پر اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا۔

دوسری جانب عمران خان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر سپریم کورٹ انتظامیہ نے تحقیقات شروع کردیں، پولیس ذرائع کے مطابق پولیس انتظامیہ اسٹاف کو سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ کر تصویر وائرل کرنے والے کی نشاندہی کرنے کی ہدایت دے دی گئی، پولیس تصویر کو وائرل کرنے والے کے خلاف ایکشن لے گی، تصویر کورٹ روم رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لی گئی، عدالت میں عمران خان کی ویڈیو چھوٹی کردی گئی۔

ادھر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیا چیف جسٹس کسی بھی جج کو بینچ سے الگ کرسکتا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 7 رکنی بنچ نے کہا 90 دونوں میں الیکشن ہوں مگر نہیں ہوئے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ میری سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے صرف 12 دونوں میں الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ہم نے آرڈر آف دی کورٹ دیا، اکیسویں ترمیم کا بھی آرڈر آف دی کورٹ تھا۔

اسی دوران ایک وکیل نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ یہ کارروائی براہ راست نشر نہیں کی جارہی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بیٹھ جائیں اس وقت دلائل چل رہے ہیں، وکیل نے کہا کہ ہم صرف آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے وکیل کو واپس بیٹھا دیا۔

پھر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجر معطل کرنا درست تھا یا غلط مگر بہر حال اس عدالت کے حکم سے معطل تھا، ایکٹ معطل ہونے کے سبب کمیٹی کا وجود نہیں تھا.

وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے بتایا کہ بینچ کے ایک رکن منصور علی شاہ نے رائے دی کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کو طے کیے بغیر نیب کیس پر کارروائی آگے نہ بڑھائی جائے،

پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کردیں؟ جسٹس قاضی فائز عیسی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ قانون درست نہیں ہے تو اسے کالعدم قرار دے دیں، اگر قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، آپ کو قانون پسند نہیں تو پورا کیس سن کر کالعدم کردیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کسی بل کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی کارروائی کو معطل کرنا نہیں؟ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایسے پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کردیں؟ ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود کو پاگل بناتے رہیں گے؟

جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید بتایا کہ اگر مجھے کوئی قانون پسند نہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون کو معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کر فیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کر کے بینچ اس کے خلاف بنا کر دیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں؟

اس موقع پر مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ نے بطور سینئر ترین جج یہ نقطہ اٹھایا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائر کر سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس ایند پروسیجر کے تحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتا ہے متاثرہ فریق بھی لاسکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھر بل پاس کرنے والے حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتے ہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150 درخواست گزار کھڑے ہوں گے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون سازوں نے ہی متاثرہ فریق کے الفاظ لکھے ہیں۔

اگر کوئی مقدمہ عدالت آئے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مقدمہ عدالت آئے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا، چیف جسٹس نے بتایا کہ قانون کو معطل کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق دو کے تحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتا ہے، حکومت متاثرہ فرد کیسے ہوتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی؟ حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر آگے بڑھیں۔

دوران سماعت بانی پی ٹی آئی ساتھ بیٹھے شخص سے باتیں کرتے رہے۔

بعد ازاں مخدوم علی خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ نیب قوانین 2022 کے فالو آپ پہ 2023 کی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم ان سوالات پر عمران خان سے جواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں۔

چیف جسٹس ریمارکس کے ساتھ زیر لب مسکرا گئے، عمران خان چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیے۔

وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے اہنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عمران خان وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگر آرڈیننس لائے، نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازعہ تھا جسے سپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سے معاملہ سپریم کورٹ لایا گیا۔

اسی موقع پر عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی بل پر کوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دے سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈینس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈینس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں؟ کیا آرڈینس کے ساتھ صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہیے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمان کو مضبوط بنانا سیاستدانوں کا ہی کام ہے۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے عمران خان کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک پر پیش کرنے کی ہدایت جاری کردی۔

یاد رہے کہ متعدد مقدمات میں تقریباً 9 ماہ سے جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم سے متعلق کیس میں بطور درخواست گزار ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے لیے تیار تھے جبکہ جیل حکام نے ان کی پیشی کے انتظامات بھی مکمل کرلیے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اگست میں زمان پارک سے گرفتاری اور توشہ خانہ کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی کی عدالت عظمیٰ میں یہ پہلی پیشی ہوگی جب کہ وزیر قانون اعظم نذیر نے اس حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اس کے علاوہ سابق وزیر اعظم کی پارٹی نے اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام پارٹی سربراہ کو سپریم کورٹ کی کارروائی سے دور رکھنے کے لیے کیا گیا ہے جس میں 5 رکنی بینچ نے عمران خان کی حاضری کا حکم دیا تھا۔

دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک سے سپریم کورٹ میں ممکنہ حاضری کے پیش نظر جیل حکام نے انتظامات مکمل کر لیے تھے، عمران خان کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا، متوقع ویڈیو لنک پیشی سے قبل مواصلاتی ٹیسٹ بھی کیا گیا۔

واضح رہے کہ 14 مئی کو سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ وڈیولنک پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز 190 ملین پاؤنڈ نیب ریفرنس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

اس کے علاوہ گزشتہ روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے آزادی مارچ کے دوران تھانہ کھنہ میں درج مقدمہ میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کو بری کر دیا تھا۔

اڈیالہ جیل میں پابندی
پی ٹی آئی رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی ایک مبینہ منصوبے کے تحت لگائی گئی ہے جس کے تحت عمران خان کو آج دوبارہ شروع ہونے والے نیب ترمیمی کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہونے سے روکا جائے گا۔

پی ٹی آئی کے وکلا کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ وہ عمران خان کی صحت کے حوالے سے انتہائی فکر مند ہیں کیونکہ عدالتی احکامات کے باوجود انہیں 15 سے 20 دن تک میڈیکل ٹیسٹ کرانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ دو روز کے دوران عمران خان کے سیکیورٹی گارڈز کو آدھی رات کو اچانک تبدیل کردیا گیا اور القادر ٹرسٹ، سائفر اور توشہ خانہ کیسز کی سماعت مختلف بہانوں سے ملتوی کردی گئی جب کہ عدت کیس میں حکومتی وکیل اچانک ملک سے باہر چلے گئے۔

پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔

فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے ‏تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔

بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔

اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔

Share.

Leave A Reply