سپریم کورٹ میں سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل واڈا اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ مصطفیٰ کمال کو طلب کرلیا۔
ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپلیمنٹری کیس کی سماعت کی، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے فیصل واڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرلیں۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟ توہین عدالت ہوئی یا نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے جو ویڈیو ملی ہے اس کے متعلقہ حصے میں آواز نہیں تھی، کچھ حصہ خبروں میں سنا ہے۔
میں نے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ادارے کے لیے حلف لیا، چیف جسٹس
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟ کوئی مقدمہ اگر عدالت میں زیر التوا ہوتو اس پر رائے دی جاسکتی ہے؟ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظر انداز کیا، میرے نظر انداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کر لیں، لیکن کیا آپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کردیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ وکلا ججز اور صحافیوں سب میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، برا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں،کیا ایسی باتوں سے اپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں؟
انہوں نے مزید بتایا کہ ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، اداروں میں کوتاہیاں ہوسکتی ہیں، میں کسی اور کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو بتائیں، تنقید کریں، ہم ہر روز ہم اچھا کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر عمل کررہے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس کے پاس دلائل ہوں گے وہ ہم ججز کو بھی چپ کرادے گا، میں نے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ادارے کے لیے حلف لیا ہے۔
بندوق اٹھانے والا اور گالی دینے والا سب سے کمزور ہوتا ہے، عدالتی ریمارکس
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا چیخ پکار کرکے اپ ادارے کی خدمت کر رہے ہیں؟ میں مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی، بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا، بھئی بتاو تو صحیح چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟ سارے میڈیا نے اسے چلا دیا، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لیے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے، چیخ و پکار اور ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں لیکن تنقید کی ایک حد ہونی چاہیے۔
بھٹو کو ہم زندہ نہیں کر سکتے لیکن غلطی تو مان لی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ان کے بعد ایک اور صاحب آگئے جن کا نام مصطفی کمال ہے، انہوں نے بھٹو کا ذکر کیا، بھائی اگرہم نے غلط کیا ہے تو بتائیں، بھٹو کے بارے میں آپ نے کیا کیا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کو ہم زندہ تو نہیں کر سکتے،لیکن غلطی تو مان لی، صرف ایک کام کرنا ہے کہ ادارے کو بدنام کرنا ہے، آپ نے بڑی جدوجہد کردی تقریر کرکے، لیکن بہتری کے لیے کوئی بھی تحریری طور پر نہیں جاتا، آپ نے تقریر کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں کریں نا، پریس کلب کیوں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ کیا کسی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ یہاں کیوں بول رے ہیں؟ بس ان کو سامعین چاہیے، فیصل واڈا کے بعد مصطفٰی کمال بھی سامنے آ گئے، دونوں ہی افراد پارلیمنٹ کے ارکان ہیں تو ایوان میں بولتے، ایسی گفتگو کرنے کے لیے پریس کلب کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ پارلیمان میں بھی ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جا سکتی، ہمیں پتا ہے ہمارا انڈیکس میں نمبر 137 یا جو بھی ہے۔
گالیاں دینا مناسب نہیں، آپ ادارے کو تباہ کر رہے ہیں، عدالت
انہوں نے ریمارکس دیے کہ باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جاسکتی، اسی عدالت نے مارشل لا کی بھی آئینی توثیق کی ہے، اگر ایک ممبر قومی اسمبلی غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے، ہمیں پتا ہے ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے،گالیاں دینا مناسب نہیں، ہر چیز پر حملہ نہ کریں ،آپ ادارے کو تباہ کر رہے ہیں، اگر توہین عدالت کی کارروائی چلائی تو کیس میں استغاثہ کون ہو گا؟ انہوں نے بتایا کہ استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اب وزن اپ کے کندھوں پر ہے،کیا شوز کاز نوٹس ہونا چاہیے یا صرف نوٹس ہونا چاہیے؟ ملک کا ہر شہری عدلیہ کا حصہ ہے، جرمنی میں ہٹلر گزرا ہے وہاں آج تک کوئی رو نہیں رہا، غلطیاں ہوئیں انہیں تسلیم کر کہ آگے بڑھیں، اسکول میں بچے غطی تسلیم کرے تو استاد کا رویہ بدل جاتا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا اور ان کو 2 ہفتے میں جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال کو نوٹس جاری کرتے ہیں، دونوں کو بلا لیتے ہیں، ہمارے منہ پر آکر تنقید کر لیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 5 جون تک ملتوی کردی۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے آج کی کارروائی کا حکمنامہ لکھوانا شروع کردیا۔
حکم نامے کے مطابق بادی النظر میں توہین عدالت ہوئی ہے، فیصل واڈا اور مصطفیٰ کمال اپنے بیانات کی وضاحت کریں، دونوں رہنماؤں سے 2 ہفتے میں جواب طلب کیا گیا ہے، عدالت نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) سے پریس کانفرنس کی ویڈیو ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ بھی طلب کر لیں۔
فیصل واڈا نے کیا کہا تھا؟
واضح رہے کہ 15 مئی کو سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔
انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے تو پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے چیزیں ہوئیں، ایک سال بعد یاد آئیں، تو ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اب پھر مداخلت ہوئی پرسوں تو الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، اب آپ کو ثبوت دینے پڑیں گے کہ کس نے مداخلت کی، کیوں کی اور اس کے شواہد دیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ورنہ تو میں بھی فون اٹھا کر کہوں کہ جج نے کہہ دیا ہے کہ قتل کردو تو اس کا ٹرائل تھوڑی ہوجائے گا۔
فیصل واڈا نے کہا تھا کہ ہمیں جواب نہیں مل رہا، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ریکارڈ کے اندر یہ سب لکھا گیا ہے اور اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو اس کے نتائج ہوں گے، اطہر من اللہ صاحب تو تاریخی فیصلے کرتے ہیں، میرا گمان ہے کہ وہ اصول پسند آدمی ہیں، وہ کسی دباؤ میں نہیں آتے، کسی سے رات کے اندھیرے میں نہیں ملتے تو وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے تحریری طور پر چیز نہ لی ہو، وہ ریکارڈ ہمیں ملنا چاہیے، ہم اسے کیوں نا مانگیں؟
بعد ازاں گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس لے لیا تھا۔
مصفطیٰ کمال نے کیا کہا تھا؟
16 مئی کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ ایک غریب اور مڈل کلاس آدمی بغیر پیسا خرچ کیے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتا، ایک جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کے لیے یہ پابندی کیوں نہیں؟
یاد رہے کہ گزشتہ روز ہی سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران 5 رکنی لارجر بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں کوپراکسی کے ذریعے دھمکانا شروع کردیا؟ کیا آپ پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے؟
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں، یہ نہیں ہونا چاہیے، میں اس بات کا حامی نہیں ہوں،اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نہ تو اس سے کوئی جج متاثر ہوگا، نہ ہراساں۔