اگرچہ متعدد بیماریاں ایسی ہیں جو خواتین کے مقابلے مردوں کو زیادہ متاثر یا شدید بیمار کرتی ہیں، تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ ذیابیطس میں بھی مردوں کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
طبی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلیا اور سوئیڈن کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی دو منفرد تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ذیابیطس کی بیماری مردوں کو زیادہ متاثر سکتی ہے یا مردوں میں اس بیماری کی شدت زیادہ ہوسکتی ہے۔
تحقیق کے لیے ماہرین نے 1993 سے 2020 تک ذیابیطس میں مبتلا ہزاروں رضاکاروں کی خدمات حاصل کیں اور ان پر تحقیق کی۔
ماہرین نے مرد و خواتین کے ٹیسٹس کرنے سمیت ان میں بیماری کی شدت اور ان پر ادویات کے فرق کو بھی جانچا۔
ماہرین نے پایا کہ خواتین کے مقابلے مردوں میں انسولین کی مزاحمت زیادہ ہے، یعنی ان کا جسم انسولین پیدا نہیں کرپاتا، جس وجہ سے ان میں ذیابیطس کی شدت زیادہ ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق خصوصی طور پر ایسے موٹاپے کے شکار افراد جن کی توند بہت زیادہ باہر نکلی ہو، ان میں ذیابیطس کی شدت زیادہ ہوسکتی ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ مرد و خواتین کے ہارمونز الگ ہوتے ہیں اور موٹاپے کے شکار مردوں کے ذیابیطس کی شدت کو کم کرنے والے ہارمونز درست انداز میں کام نہیں کرپاتے جب کہ خواتین کے ایسے ہارمونز بہتر کام کرتے ہیں۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ موٹاپے اور توند کے حامل مرد افراد میں ذیابیطس کی شدت خواتین سے دگنی ہوتی ہے جب کہ ان پر ادویات بھی اس طرح اچھے اثرات مرتب نہیں کرتیں جس طرح خواتین پر کرتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کی بیماری کی شدت مردوں میں زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی جنس سمیت ان کے منفرد ہارمونز ہیں اور طبی سائنس میں یہ پہلے بھی ثابت ہوچکا ہے کہ متعدد بیماریاں مردوں کو زیادہ بیمار کرتی ہیں۔