ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی اتوار کو ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد سے جہاں ایک جانب دنیا بھر کے رہنماؤں کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں اس ہیلی کاپٹر کے بارے میں بھی بحث ہو رہی ہے جسے اتوار کو حادثہ پیش آیا تھا۔
اس حادثے کے باعث ہیلی کاپٹر میں سوار تمام نو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ بیل 212 نامی ہیلی کاپٹر تھا جس میں ابراہیم رئیسی کے علاوہ ایران کے وزیرِ خارجہ امیر عبداللہیان، ایران کے مشرقی آذربائیجان صوبے کے گورنر ملک رحمتی، تبریز کے امام محمد علی الہاشم اور عملے کے ارکان سوار تھے۔
جب یہ حادثہ پیش آیا تو ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھی ایران آذربائیجان سرحد پر قز قلاسی اور خودآفرین نامی ڈیموں کی افتتاحی تقریب کے بعد تبریز شہر جا رہے تھے۔
ابراہیم رئیسی کے قافلے میں تین ہیلی کاپٹرز تھے جن میں سے دو بحفاظت منزل پر پہنچ گئے۔ حادثے کی وجوہات کے بارے میں تاحال باضابطہ طور پر تو نہیں بتایا گیا لیکن ایرانی سرکاری میڈیا میں اس کی ابتدائی وجہ خراب موسم بتائی جا رہی ہے۔
آئیے آپ کو اس ہیلی کاپٹر کے بارے میں کچھ دلچسپ تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔
جب یہ حادثہ پیش آیا تو ابراہیم رئیسی اور ان کے ساتھی ایران آذربائیجان سرحد پر قز قلاسی اور خودآفرین نامی ڈیموں کی افتتاحی تقریب کے بعد تبریز شہر جا رہے تھے۔
بیل 212 ہیلی کاپٹر کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
بیل 212 ہیلی کاپٹر دراصل یو ایچ ون این ٹوئن ہیلی کاپٹر کی ایک قسم ہے اور یہ ایک مسافر ہیلی کاپٹر ہے جسے ویتنام جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔
یہ ہیلی کاپٹر سرکاری اور نجی آپریٹرز دونوں استعمال کرتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یہ ہیلی کاپٹر 1960 کی دہائی میں کینیڈین فوج کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ UH-1 Iroquois نامی ہیلی کاپٹر کا نیا ماڈل تھا۔
نئے ڈیزائن میں دو انجن استعمال کیے گئے تھے اور نئے ہیلی کاپٹر میں مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش بھی پہلے سے زیادہ تھی۔
امریکی فوجی تربیت سے متعلق دستاویزات کے مطابق 1971 میں اس ہیلی کاپٹر کو امریکہ اور کینیڈا نے اپنے بیڑے میں شامل کر لیا تھا۔
یہ یوٹیلیٹی ہیلی کاپٹر ہیں اس لیے انھیں UH کہا جاتا ہے۔
یہ ہیلی کاپٹرز کن مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے؟
ان ہیلی کاپٹرز کو ہر قسم کے کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسے مسافروں کی نقل و حمل، آگ بجھانا، سامان کی نقل و حمل، ہتھیاروں کی فراہمی وغیرہ۔
ابراہیم رئیسی جس ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے تھے اس کو اس طرح سے ماڈیفائی کیا گیا تھا یا اس میں ایسی تبدیلیاں کی گئی تھیں کہ اسے اعلیٰ سرکاری افسران اور رہنماؤں کے سفر میں استعمال کیا جا سکے۔
یہ ہیلی کاپٹر امریکی کمپنی بیل ٹیکسٹرون نے تیار کیا ہے۔ کمپنی کا مرکزی دفتر ٹیکساس میں ہے۔
بیل ہیلی کاپٹر کے جدید ترین ماڈل بیل 412 کے بارے میں کمپنی کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق اسے پولیس، میڈیکل ٹرانسپورٹ، فوجیوں کی نقل و حرکت، توانائی کی صنعت اور آگ بجھانے کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی سے موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق اس میں عملے سمیت 15 افراد بیٹھ سکتے ہیں۔
ہیلی کاپٹر سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ہیلس کے مطابق بیل 212 ہیلی کاپٹر کی لمبائی 17 میٹر اور اونچائی تقریباً چار میٹر ہے۔
گلوبل ایئر کی ویب سائٹ کے مطابق، بیل 212 ہیلی کاپٹر کو چلانے پر تقریباً ایک لاکھ 35 ہزار روپے فی گھنٹہ خرچ آتا ہے۔
جبکہ ویپن سسٹم ویب سائٹ کے مطابق یہ ہیلی کاپٹر 230 سے 260 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتا ہے۔
اس ہیلی کاپٹر کا سیفٹی ریکارڈ کیسا ہے؟
یہ ہیلی کاپٹر جاپانی کوسٹ گارڈ کے زیرِ استعمال ہے۔ امریکہ میں یہ ہیلی کاپٹر فائر ڈیپارٹمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے استعمال کرتے ہیں۔
تھائی لینڈ کی نیشنل پولیس بھی اس ہیلی کاپٹر کو استعمال کرتی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ایران ایسے کتنے ہیلی کاپٹر استعمال کرتا ہے۔
لیکن فلائٹ گلوبل کی 2024 کی عالمی فضائیہ کی ڈائریکٹری کے مطابق ایران کی فضائیہ اور بحریہ کے پاس ایسے 10 ہیلی کاپٹر ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر کتنے عرصے سے استعمال میں تھا اور ایران کی حکومت ان میں سے کتنے ہیلی کاپٹر استعمال کرتی ہے۔
اس سے قبل یہ ہیلی کاپٹر ستمبر 2023 میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ پھر ایک پرائیویٹ آپریٹر کا یہ ہیلی کاپٹر متحدہ عرب امارات میں گر کر تباہ ہو گیا۔
اس قسم کا حادثہ ایران میں 2018 میں پیش آیا تھا تب اس حادثے میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ستمبر 2013 میں بیل 212 ٹوئن بلیڈ ہیلی کاپٹر ممبئی میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس حادثے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے دعوے کے مطابق 1972 سے 2024 تک بیل 212 کو لگ بھگ 432 حادثے پیش آ چکے ہیں جن میں تقریباً 630 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایران پر کئی برسوں کی پابندیاں اس کے فضائی بیڑے کو کیسے غیر محفوظ بنا رہی ہیں؟
ہیلی کاپٹر گرنے کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے لیکن ہوائی نقل و حمل کی حفاظت کے معاملے میں ایران کا ریکارڈ خراب رہا ہے۔
اس کی ایک وجہ کئی دہائیوں سے عائد امریکی پابندیاں بھی بتائی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ایران کا ہوابازی کا شعبہ کمزور ہوا ہے۔
ابراہیم رئیسی بیل 212 ہیلی کاپٹر پر سوار تھے۔ یہ ماڈل امریکہ میں بنایا گیا تھا۔ ماضی میں ایران کے دفاع اور ٹرانسپورٹ کے وزرا کے علاوہ ایران کی فوج اور فضائیہ کے کمانڈر بھی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کے حادثوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔
مئی 2001 میں ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ کا طیارہ بھی گر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس کا ملبہ ڈھونڈنے کے لیے کافی کوششیں کرنا پڑی تھیں۔ اس طیارے میں 28 افراد سوار تھے اور بتایا گیا تھا کہ حادثے میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا۔
جب ایرانی حکومت کی جانب سے ملکی طیاروں کو جدید بنانے کی کوششیں کی گئیں تو مغربی ممالک کے ساتھ بھی کچھ معاہدے کیے گئے اور اس میں پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے بھی بات کیے گئے تھے۔
تاہم یہ کوششیں اس وقت رک گئیں جب اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور پھر پابندیاں عائد کر دیں۔
سخت گیر لوگوں نے ملکی صنعتوں اور غیر ملکی شراکت داروں پر انحصار کی بات کرتے ہوئے ہوا بازی کے شعبے کو مضبوط کرنے کے لیے اصلاح کاروں کی کوششوں پر تنقید کی گئی تھی۔
بی بی سی کے بین الاقوامی امور کے ایڈیٹر جیریمی بوون کا کہنا ہے کہ کیونکہ ایران کو کئی برسوں سے پابندیوں کا سامنا رہا ہے اس لیے ایرانی طیارے غیر محفوظ ہو چکے ہیں کیونکہ وہ جہازوں کے سپیئر پارٹس یا نئے ایئر فریم حاصل نہیں کر پاتے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’سنہ 1990 کے دوران ایران میں ایک بڑے زلزلے پر رپورٹنگ کر رہا تھا۔ یہ علاقہ گذشتہ روز کے ہیلی کاپٹر حادثے کے مقام سے زیادہ دور نہیں ہے۔
’میں امریکی ساختہ ہیلی کاپٹر پر سوار تھا جو اسلامی انقلاب سے قبل شاہ دور کا تھا۔ اسے ہنگامی لینڈنگ کرنی پڑی تھی کیونکہ مرمت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ایک انجن فیل ہو گیا تھا۔
کچھ ہفتوں بعد مجھے بتایا گیا کہ یہ ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا اور اس میں موجود تمام مسافروں کی ہلاکت ہو گئی۔