ہر برس جولائی میں سبریجا ہیجڈریوک اپنے شوہر اور والد کی قبروں پر سربرینیتسا آتی ہیں۔ وہ 1995 میں سرب افواج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے تقریباً 8000 بوسنیائی مسلمان مردوں اور لڑکوں میں شامل تھے۔
67 سالہ سبریجا اب آسٹریلیا میں رہتی ہیں لیکن ہر برس وہ سربرینیکا آتی ہیں اور یہ دورہ ان کے لیے بہت معنی بھی رکھتا ہے۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ رواں سال مئی میں اقوامِ متحدہ میں منظور کی گئی قرار داد کے مطابق 11 جولائی کا دن 1995 میں ہونے والے قتلِ عام کی یاد میں گزارا گیا۔
ماضی میں ایسے دعوے منظر عام پر آتے رہے ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ سربرینیکا میں ہونے والے قتلِ عام میں کسی ایک قوم کو ہدف نہیں بنایا گیا۔
سبریجا ان دعوؤں پر کہتی ہیں کہ ’ہر طرف پھیلے جھوٹ کے بجائے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ اس وقت ہوا کیا تھا۔ میری روح تکلیف میں ہے، اگر میرے شوہر اور والد زندہ ہوتے تو کیا میں کبھی یہ کہوں گی کہ انھیں قتل کر دیا گیا تھا؟‘
سربرینیکا میں ہونے والے قتلِ عام کو اقوامِ متحدہ نے نسل کشی قرار دیا تھا۔ یہ تنازع 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد شروع ہوا تھا۔
بوسنیا ان ممالک میں سے ایک ہے جو یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد وجود میں آئے تھے۔ یہاں تنازع تین قومیت کے لوگوں کے درمیان تھا: بوسنیائی سرب جنھیں سربیا کی حمایت حاصل تھی اور بوسنیائی برداری اور کروٹس۔
اقوامِ متحدہ کا ’سیف زون‘ جو غیر محفوظ رہا
سربرینیکا جو کبھی چاندی اور نمک کی کانوں کے لیے جانا جاتا تھا تقریبا 40 ہزار بوسنیائی مسلمانوں کا گھر تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ 1992 اور 1995 کے دوران بوسنیائی سربوں کے ہاتھوں شروع ہونے والی نسل کشی سے بچنے کے لیے مجبوراً علاقہ چھوڑ گئے تھے۔
اس قصبے کو 1993 میں اقوامِ متحدہ نے ’سیف زون‘ (محفوظ علاقہ) قرار دیا تھا اور بین الاقوامی امن دستوں کو ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اس علاقے کو حملوں سے محفوظ رکھیں۔
لیکن جولائی 1995 میں بوسنیا کی سرب افواج نے فوجی کمانڈر راتکو ملادچ کی قیادت میں شہر پر دھاوا بول دیا اور امن دستے عام لوگوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام رہے۔
سرب افواج نے خواتین کو مردوں اور نوجوان سے الگ کر دیا۔ حراست میں لیے گئے بہت سارے مردوں اور نوجوانوں کو دوبارہ کبھی زندہ نہیں دیکھا گیا۔
یہ افراد یا تو جتھوں کی صورت میں مارے گئے یا پھر انھیں اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ سربرینیکا میں قریبی جنگل کی پہاڑیوں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
تقریبا 8 ہزار مردوں اور لڑکوں کے بہیمانہ قتل کو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا بدترین اجتماعی ظلم قرار دیا گیا تھا۔ ہلاک ہونے والے تقریبا ایک ہزار افراد کی لاشیں اب تک نہیں مل سکی ہیں۔
سربرینیکا جو کبھی چاندی اور نمک کی کانوں کے لیے جانا جاتا تھا تقریبا 40 ہزار بوسنیائی مسلمانوں کا گھر تھا
راتکو ملادچ کو جنگی جرائم بشمول نسل کشی میں ملوث ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، ان کے ساتھ 50 مزید سرب باشندے بھی تھے جو قصوروار قرار دیے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی حالیہ قرارداد میں جنگی مجرموں کی تعریف کرنے اور قتل عام کے اعتراف سے انکار کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
زیادہ تر بوسنیائی سربوں کے ساتھ ساتھ سربیا کے بہت سے لوگ بھی ماضی میں بارہا اس بات سے انکار کرتے رہے ہیں کہ 1995 میں جو کچھ ہوا وہ نسل کشی تھی۔
لاشوں کی تدفین
بوسنیا کے کچھ خاندان کئی دہائیوں سے اپنے پیاروں کے تدفین کے منتظر ہیں کیونکہ شناخت کا عمل طویل اور مشکل ہے۔
سبریجا ہیجڈریوک اپنے شوہر کی کھوپڑی دفن کرنے میں کامیاب رہیں کیونکہ یہ ان کے جسم کا واحد حصہ تھا جو انھیں ملا تھا۔
ان کے والد کی باقیات ابھی تک نہیں ملیں ہیں حالانکہ وہ جانتی ہیں کہ انھیں سربرینیکا میں ان کے گھر کے قریب قتل کیا گیا تھا۔
ان کی ماں نے اپنے شوہر کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ سبریجا نے اپنے والد کی تصویر اپنے فیس بُک پیچ پر بھی لگا رکھی ہے۔
سبریجا اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے کہتی ہیں کہ والد کے قتل کے چھ ماہ بعد ان کی والدہ بھی ’دکھ کے سبب‘ اس دنیا سے چلی گئیں۔
سربرینیکا میں قتل ہونے افراد کو اقوام متحدہ کے سابق امن فوجیوں کے اڈے کے قریب قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔ یہاں ہزاروں بے نشان سفید قبریں ایک پہاڑی کی ڈھلوان پر موجود ہیں۔
قتل کیے گئے افراد کی شناخت کا عمل اب بھی جاری ہے اور ہر بس ان افراد کی باقیات ایک اجتماع کے دوران پوٹوکاری قبرستان میں دفن کی جاتی ہیں۔
بریجا ڈیلیک نے اس قتل عام میں اپنے شوہر کو کھو دیا تھا۔ ان کی باقیات ایک دہائی بعد ملی تھیں اور انھیں 2010 میں دفن کیا گیا تھا۔
گذشتہ سال ڈیلیک نے مالٹا سے سربرینیکا واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا، جہاں انھوں نے جنگ کے بعد پناہ لی تھی۔
وہ اپنے بنائے میٹھے پکوان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے بیٹے نے جو ایک مسلمان ہیں ایک سرب آرتھوڈوکس عورت سے شادی کی جو ’میرے بکلاوا سے محبت کرتی ہے۔‘
سربرینیکا کی ایک سُنسان سڑک
’اگر کسی بیمار کو خون کی ضرورت ہو تو کوئی بھی یہ نہیں پوچھے گا کہ آیا وہ مسلمان ہے، کیتھولک ہے یا آرتھوڈوکس؟‘
1990 کی دہائی کی جنگ سے پہلے سربرینیکا بڑی حد تک بوسنیائی مسلمان آبادی والا قصبہ تھا، تاہم اب یہاں سرب آبادی اکثریت میں ہے۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جنگ کے دوران فوج میں تھے۔
ڈیلیک کہتی ہیں کہ ’اب بھی آپ کسی شخص کو شہر میں گھومتے ہوئے دیکھتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ اس نے (بوسنیائیوں کو) قتل کیا تھا لیکن آپ خاموش رہتے ہیں، آپ اس کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتے۔‘
بےروزگاری، ایک مشترکہ مسئلہ
جنگ کے بعد بوسنیا دو ممالک بوسنیا و ہرزیگوینا اور سرپسکا میں تقسیم ہو گیا تھا۔ سربرینیکا سرپسکا میں واقع ہے۔
جنگ کے بعد بوسنیائی آبادی کم ہوئی اور سربین باشندوں کی آبادی میں اضافہ ہوا، لیکن اب ان دونوں کو ایک ہی مسئلے کا سامنا ہے اور وہ ہے بے روزگاری۔
مقامی سیاحتی آفس سے منسلک 37 سالہ سلویسا پیٹرووچ کہتے ہیں کہ ’بوسنیائی اور سربین باشندوں کے آپس میں کوئی مسائل نہیں، یہاں موجود تناؤ باہر سے آنے والوں کے سبب ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق قتلِ عام کے حوالے سے اقوامِ متحدہ میں پاس کی گئی حالیہ قرار داد سے وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’لوگ اب بھی سربرینیکا کو ویسے ہی خیرباد کہہ رہے ہیں جیسے اس قرار داد کی منظوری سے پہلے ہو رہا تھا۔ یہاں ملازمتیں نہیں ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں نہیں تھیں۔‘
یہ علاقہ اپنی اہمیت کھو رہا ہے اور اس کی علامات صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں موجود ایک مشہور و معروف سپا اور پُر آسائش ہوٹل اب بند ہو چکا ہے، ان کی دیواروں پر نقش و نگار بنے صاف نظر آتے ہیں۔
اطراف میں موجود دیہاتوں کی طرف سڑکوں پر پہلے کبھی چرواہے اپنے جانوروں کو ہانکتے ہوئے نظر آتے تھے لیکن اب یہ راہیں سُنسان ہیں اور وہاں جھاڑیاں بڑھ چکی ہیں۔
یہاں موجود گھر کھنڈروں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہاں قریبی پہاڑی پر ایک مسجد اور چرچ واقع ہے اور انھیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے اس زمین کے زخم آج بھی تازہ ہوں۔
سربین اور بوسنیائی بچے یہاں سکول اکھٹے ہی جاتے ہیں اور نئی نسل کی تصاویر علاقے میں فخر کے ساتھ چسپاں کی جاتی ہیں۔ لیکن امکان یہی ہے کہ نوجوان بھی جلد ہی یہ علاقہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں گے۔
سلویسیا یہ سوچ کر غمزدہ ہیں کہ لوگ مسلسل اس علاقے کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ ’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ میرا گھر چھوڑ کر جا رہے ہوں۔‘
سلویسیا کے ہم جماعتوں میں سے صرف تین افراد ایسے ہیں جو سربرینیکا میں اب بھی مقیم ہیں، باقی یہاں سے کہیں اور منتقل ہو چکے ہیں۔
لیکن پھر بھی سلویسیا اس علاقے میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب ان کی چار برس کی بیٹی بڑی ہوگی تو انھیں لگتا ہے کہ اس کے خیالات اس حوالے سے مختلف ہوں گے۔