پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ساتھ تعطیلات کے دوران 4 ایڈہاک ججز کو 3 سال کے لیے سپریم کورٹ لانا بدنیتی پر مبنی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور سنی اتحاد کونسل کی پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ آج پارلیمانی پارٹی اجلاس میں ہمارے اور اتحادی جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے شرکت کی۔
انہوں نے کہا کہ ایڈہاک ججز آزاد عدلیہ کے لیے مضر ہے، ہم معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج رہے ہیں، ججز اس معاملے کو متنازع نہ بنائیں، آج فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں لگانے والے ایڈہاک ججز کو لگایا گیا وہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 4 ججز کو ایک ساتھ دوران تعطیلات لایا جا رہا ہے، 3 سال کے لیے ان چار کو لانا بدنیتی پر مبنی ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا، مخصوص نشستوں کےفیصلے پر عمل کرانا سپریم کورٹ کا کام ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرانا چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر صورت اس فیصلے پر عمل درآمد ہو۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ملک کے 70 فیصد عوام کی ترجمان جماعت ہے، اس پر کوئی بھی پابندی حکومت کے خاتمے کی طرف کاؤنٹ ڈاؤن ہوگا، پی ٹی آئی محب وطن پارٹی تھی، ہے اور رہے گی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائز حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ عمران خان کے خلاف مضامین لکھتی رہی ہیں، انہوں نے اپنا مائنڈ دیا، چیف جسٹس کو عمران خان سے متعلق کوئی کیس نہیں سننا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میں ایک بار پھر مطالبہ کرتا ہوں کہ چیف الیکشن کمشنر اور اس کے دیگر ممبران فوری مستعفی ہوں ورنہ ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروئی ہونی چاہیے۔
اس موقع پر سینیٹ میں قائد اختلاف سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکمران ٹولہ تلملا اٹھا ہے، یہ بوکھلا گیا ہے، ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں کہ عوام کا مینڈیٹ عوام کے نمائندوں کی طرف جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی پر پابندی کا فیصلہ انتہائی بھونڈہ ہے، ان کے پاس تمام آپشن ختم ہوگئے، جس طرح سے آئین و قانون کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے، اس طرح سے ملک آگے نہیں، نیچے ہی جا سکتا ہے، گزشتہ روز فچ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ حکومت 18 ماہ کی مہمان ہے، اس کے بعد ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس ملک کے ساتھ مزید کھلواڑ کے متحمل نہیں ہوسکتے، یہ ملک کسی ایک طبقے کا نہیں ہے، عوام صرف ٹیکس دینے کے لیے نہیں ہیں، تمام چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں، یہ عوام کے جینے کو مشکل بنا رہے ہیں۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ میڈیا بھی عوام کے مسائل کو اجاگر کرے، ہم نے وہ دیکھا جو اس ملک میں کسی نے نہیں دیکھا، اگر ہم نے اس ملک کو مہذب ممالک کی صف میں لانا ہے تو آپ کو آئین اور قانون کی حکمرانی ماننی پڑے گی۔
سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے اعلان کے معاملے پر پیپلز پارٹی بیچ بیچ میں نہ کھیلے، واضح مؤقف لے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ایم این ایز کو اغوا کیا جا رہا ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، عمران خان، بشریٰ بی بی کے خلاف سیاسی، جھوٹے، من گھڑت مقدمے بنائے جا رہے ہیں، ہم ان کی مذمت کرتے ہیں، ان کے ساتھ یہ رویہ، عوام کے ساتھ یہ رویہ ہے، پاکستان کے عوام اب جاگ چکے ہیں، انہوں نے سب کچھ دیکھ لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین و قانون پر کام کریں ورنہ ملک میں افراتفری اور بےچینی ہےاور کچھ نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا حقیقی آزادی کےلیےجنگ جاری رہےگی، عمر ایوب
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ پارٹی ایک ہے اور ایک ہی رہے گی، انہوں نے ہمارے لیڈر کو جیل میں ڈالا لیکن ہماری پارٹی نہیں ٹوٹی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی اور افراط زر عروج پر ہے، ہمارے لیڈر کو جیل میں ڈالا لیکن پارٹی نہیں ٹوٹی، اس حکومت کا غریب اورمحنت کش سےکوئی تعلق نہیں، ملک میں مہنگائی اور افراط زر عروج پر ہے۔
عمرایوب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سے بیٹوں کی بات کرنا قانونی ہے، سپریم کورٹ نے ڈیکلیئرکیا پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے، بانی پی ٹی آئی نے کہا حقیقی آزادی کےلیےجنگ جاری رہےگی۔
ایڈہاک ججز کا معاملہ
یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 19 جولائی کو طلب کر رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ایڈہاک ججز کی تقرری کے لیے 4 ریٹائرڈ ججز کے نام تجویز کیے تھے، ان ججز میں جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم کا نام بھی شامل تھا، دیگر ججز میں جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر ، جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس ریٹائرڈ طارق مسعود کے نام شامل ہیں۔
واضح رہے کہ دو روز قبل سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مشیر عالم نے ایڈہاک جج بننے سے معذرت کرلی تھی، اپنے فیصلے سے جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ کر آگاہ کردیا تھا۔