پیکا ایکٹ کا مقدمہ: رہنما پی ٹی آئی رؤف حسن و دیگر کی ضمانت منظور

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پیکا ایکٹ کا مقدمہ: رہنما پی ٹی آئی رؤف حسن و دیگر کی ضمانت منظور
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے رہنما پی ٹی آئی روف حسن و دیگر ملزمان کے خلاف پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت درج مقدمے میں ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواست منظور کرلی.

عدالت نے 50،50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانتیں منظور کیں .

درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ڈیوٹی مجسٹریٹ عباس شاہ نے کی ، پی ٹی آئی وکیل علی بخاری و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر عامر شیخ اور تفتیشی افسر بھی ریکارڈ سمیت عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل علی بخاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ احمد وقاص جنجوعہ کے انکشاف پر رؤف حسن کے خلاف مقدمہ درج ہوا، مقدمے میں نامزد 8 ملزمان تنخواہ لینے والی ملازم ہیں ، ان 8 ملزمان کا رؤف حسن سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے ، ملزمان میں کچھ نائب قاصد، ڈیسک آپریٹر، ریسیپشنسٹ وغیرہ ہیں ، ان ملازمین نے ملک کو کیا نقصان پہنچایا، ان یہ قصور کہ وہ نوکری کرتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ الزام ہے کہ رؤف حسن نے پی ٹی آئی سوشل میڈیا کا الگ سیل بنایا ہوا ہے، یہ بھی الزام ہے کہ رؤف حسن کی ایما پر سوشل میڈیا پر ریاست مخالف کمپین چلائی جاتی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ چوروں کو چور نہ کہا جائے، رؤف حسن اور دیگر پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں، بندہ پکڑ کر ایف آئی آر درج کی جارہی ہے ، ایف آئی آر میں تو سیکشن 9 کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔

علی بخاری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس ایف آئی آر میں بے ترتیب الزامات لگائے گئے ہیں ، عدالت ضمانت دے سکتی یا مقدمے سے ڈسچارج کرسکتی ہے ، علی بخاری ایڈووکیٹ نے سیکشن 9 ، 10، اور 11 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہایف آئی آر میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا کہ ملزمان نے کیا جرم کیا ہے؟

علی بخاری ایڈووکیٹ نے سیکشن 9،10اور 11کے حوالے سے جسٹس بابر ستار کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس بابر ستار نے فیصلے میں لکھا کہ جتنا عرصہ ملزمان گرفتار رہیں گے وہ آئین کے خلاف ہوگا ، اعظم سواتی ایک ٹوئٹ کرنے کے کیس میں گرفتار ہوئے ، ضمانت پر رہا ہونے کے بعد دوبارہ ٹوئٹ کردیا تب بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کرلی۔

اسی کے ساتح رؤف حسن اور دیگر کی ضمانت منظوری پرعلی بخاری ایڈووکیٹ نے دلائل مکمل کرلیے۔

بعد ازاں ایف آئی اے پراسیکیوٹر عامر شیخ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ 14 ملزمان میں سے 12 ملزمان گرفتار ہیں، 2 خواتین ہونے کی وجہ سے ضمانت پر ہیں ، اس کیس میں چار ٹیکنینل رپورٹس موجود ہی، رپورٹس کے مطابق 100 سے زائد واٹس ایپ گروپس چل رہے جن سے اشتعال پھیلایا جاتا ہے،

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مختلف ٹوئٹس کے ٹرانسکرپٹ پڑھے۔

ان کا کہنا تھا کہ رؤف حسن جو بات کرتے ہیں ان کی بات سے بیانیہ بنایا جاتا ہے ، بھارت سے بات کرکے بیانیہ بنایا جاتا ہے ، خونی انقلاب کا بیانیہ بنایا گیا، مختلف فرقہ واریت والی کمپین چلائی جاتی ہے۔

مزید بتایا کہ راہول رائے بھارتی ایجنسی را کا فرنٹ مین ہے ، ملزم لیاقت نے بی ایل ایف کی چیزوں کا پروپگنڈا بنایا ہے ، ڈیجیٹل ٹیم میں پاکستانی ، انڈین اور دیگر غیر ملکی شامل ہیں۔

اس موقع پر علی بخاری ایڈوکیٹ نے کہا کہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مختلف ٹویٹس کا ذکر کیا اس سے ہمارا کیا تعلق ہے؟ رؤف حسن ترجمان پی ٹی آئی میڈیا کوآرڈینیٹر نہیں ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے روؤف حسن اور دیگر کی ضمانت بعد از گرفتاری پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما رؤف حسن و دیگر کی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت درج مقدمے میں ضمانت بعد ازاگرفتاری کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی تھی۔

اس سے گزشتہ سماعت پر ڈیوٹی جج مرید عباس نے رؤف حسن اور دیگر کو 2 دن کے جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا، ایف آئی اے رؤف حسن اور دیگر کا مجموعی طور پر 7 دن کا ریمانڈ حاصل کرچکی ہے۔

25 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے رہنما پاکستان تحریک انصاف رؤف حسن و دیگر9 ملزمان کے خلاف پری وینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں مزید 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔

23 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کے حوالے کردیا تھا۔

22 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکرٹریٹ پر چھاپہ مار کر سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن کو گرفتار کر لیا تھا۔

اس سے قبل شبلی فراز نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر اور رہنما رؤف حسن دونوں کو گرفتار کرلیا لیکن پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ کس کیس میں انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔

Share.

Leave A Reply