ہمارا اور خلیل الرحمٰن قمر کا سفر

Pinterest LinkedIn Tumblr +

وہ کہتے ہیں کہ میرا جہاد فیمنزم کے خلاف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس جہاد میں شامل ہونے کے لیے اگر صبح کے چار بج کر چالیس منٹ پر بھی کال دیں تو ہزاروں لونڈے موٹر سائیکلوں کو کِک مار کر یا دوستوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اس جہاد میں شامل ہونے کے لیے لبیک کہتے ہوئے پہنچ جائیں گے۔

جس طرح ہم نے اس ملک میں کافر اور گستاخ پیدا کرنے کا کارخانہ لگا رکھا ہے، اسی طرح ہم نے فیمنزم کے خلاف جہاد کے نام پر بھی گھر میں، ہر بازار میں، ہر سکول کالج کے گیٹ پر، ہر دفتر پر، ہر سڑک پر چلتی، ہر بس میں سفر کرتی عورت کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے۔

کوئی فرق نہیں پڑتا اگر عورت رات کے 12 بجے کسی کو اپنی تصویر بھیجتی ہے یا سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو چُھپا کر بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے نکلتی ہے۔

ہمیں اس سے بھی کوئی مطلب نہیں کہ وہ عورت ’دو ٹکے‘ کی ہے یا دو کروڑ کی گاڑی چلاتی ہے، ہسپتال میں بیماروں کا علاج کرتی ہوئی نرس ہے یا بینک میں مسکرا کر ہمارا چیک کیش کرتی ہے، ہیلمٹ پہن کر موٹر سائیکل چلاتی ہے یا شام کو ٹیلی ویژن کے کسی شو میں بیٹھ کر سیاسی امور پر تجزیہ کرتی ہے۔

ان سب کے لیے ہمارے اندر ایک چھوٹا موٹا خلیل الرحمٰن قمر پل رہا ہے، چونکہ تعلیم ہماری شروع سے ہی تھوڑی کمزور ہے تو جو بھی وہ کہتا ہے لگتا ہے گویا یہ بھی ہمارے دل میں ہے۔

وہ جو ہمیں یاد کراتے نہیں تھکتے کہ اللہ نے جنت ماں کے قدموں میں رکھی ہے اور جتنے حقوق اسلام نے عورت کو دیے ہیں اتنے کسی نے نہیں، وہ بھی نہیں بتا پاتے کہ آخر ہم نے اتنی ’گستاخ‘ عورتیں کیسے پیدا کر لیں کہ ہمیں ہر چند دن کے بعد کسی عورت کو کاٹ کر، جلا کر، گلا گھوٹ کر مارنا پڑتا ہے۔ اگر پیار اور غصہ ساتھ ساتھ آ جائے تو تیزاب کی بوتل ڈھونڈنے لگتے ہیں۔

جس فیمنزم کے خلاف ہم صبح کے چار بج کر 40 منٹ پر جہاد کرنے کے لیے نکلے ہیں وہ فیمنزم کہیں باہر سے نہیں آیا، عورت مارچ والی بچیاں نہیں لے کر آئیں۔ یہ ہمارے گھروں سے ہی نکلا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہماری معاشی مردانہ کمزوری ہے کہ ہم عورت کو بٹھانا تو گھر میں چاہتے ہیں لیکن عورت کی مزدوری، اس مزدوری کی کمائی کے بغیر ہم وہ گھر نہیں چلا سکتے تو ملک تو دور کی بات ہے۔

اب تک سب سے زیادہ عورتوں کو گھر میں بٹھا کر ریاست چلانے والے، ہمارے سے زیادہ اسلامی اور سب سے بڑے امیر بھائی سعودی عرب کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ عورتوں کو گھر میں بٹھا کر ریاست نہیں چلائی جا سکتی۔

عورت مارچ

ہمارے گھر میں کبھی اتنے دانے ہی نہیں تھے کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو گھر میں بٹھا کر اس کی کفالت کر سکتے۔

گھروں میں، کھیتوں میں، سڑکوں پر پتھر کوٹتی بچیاں، عورتیں بچپن سے دیکھتے آئے تھے۔ اپنے زور پر تھوڑا پڑھ لکھ گئیں تو دفتروں میں، بازاروں میں، پرائیوٹ کمپنیوں میں اچھے عہدے پر لگ گئیں، پہلے سے زیادہ کمانے لگیں، ہم ان کی کمائی کھاتے بھی جاتے ہیں اور زیادہ غضب ناک بھی ہوتے جاتے ہیں۔

جو اپنی روزی خود کمائے گی اس کا کبھی دل کرے گا کہ اپنی مرضی کا پہنے، آنکھ اٹھا کر بھی بات کرے۔ ہماری کمزور سے کمزور تر ہوتی مردانگی کو لگا کہ یہ جو اپنی کمائی سے شلوار کُرتا پہن کر گلے میں دوپٹہ پہن کر پھرتی ہے وہ دراصل بِکنی پہن کر ہماری مردانگی کی قبر پر رقص کرنا چاہتی ہے۔

جن کو سکول کی وردی پہن کر، آنکھیں نیچے کر کے سڑک پر چلتی ہر بچی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ ڈانس کر رہی ہے ان میں سے زیادہ تر مجبور ہیں کہ اپنی بچی کو سکول بھیجیں۔ پاکستان میں شاید ہی آپ نے کوئی غریب ماں باپ دیکھے ہوں جن کا خواب نہ ہو کہ ان کی بچی چار جماعتیں پڑھ جائے، جو نہیں بھیج پاتے ان کی مجبوری یہی ہے کہ جب بچی چھ سال کی ہوتی ہے تو انھیں اس کی کمائی کی ضروت پڑ جاتی ہے۔ اس ضرورت سے فیمنزم پیدا ہوتا ہے۔

لمبا کش لگا کر اس کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو مرد کا بچہ ثابت کرتے ہوئے یہ بھی یاد رکھیں کہ سب سے افضل جہاد وہ ہے جو ڈھلتی عمر کا انسان اپنے نفس کے خلاف کرتا ہے اور اس کی زیادہ ضرورت صبح کے چار بجکر 40 منٹ پر پڑتی ہے۔

Share.

Leave A Reply