تہران میں 31 جولائی کو حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسمعٰیل ہنیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے اہم کمانڈر کے ٹارگٹڈ قتل کے بعد مشرقِ وسطیٰ پر ایک بار پھر ممکنہ جنگ کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں۔
اسرائیلی حکام خوش ہیں کیونکہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کرنے والی حماس کے سربراہ مارے جاچکے ہیں۔ تاہم اسرائیل اب بھی سکون سے نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ وہ گزشتہ 10 ماہ سے وحشیانہ حملوں میں غزہ کے 40 ہزار بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے جبکہ غزہ کے انفرااسٹرکچر کو بھی بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
دنیا بشمول امریکی عوام کا مؤقف اسرائیل مخالف ہوتا جارہا ہے حالانکہ امریکا تو اسرائیل کا دیرینہ حمایتی ہے۔ یہ ہم نے اس وقت دیکھا جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو امریکی کانگریس سے خطاب کررہے تھے تب زیادہ تر ٹی وی چینلز کپیٹل عمارت کے باہر ہونے والے مظاہرے نشر کررہے تھے۔ سینیٹر برنی سینڈرز کی طرح امریکا سے اٹھنے والی بہت سی سنجیدہ آوازوں نے جنگی مجرم کے استقبال پر کھلی تنقید کی۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ وہ انسانیت کے خلاف اس کے جرائم کی مذمت کرنے سے بھی انکاری ہیں حالانکہ عالمی عدالت انصاف اور انٹرنیشنل کریمنل کورٹ دونوں نے غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کو تسلیم کیا ہے۔
اسرائیل نے جنگ بندی کے اقوامِ متحدہ کے مطالبے کو بھی نظرانداز کردیا۔ یہ حیران کُن ہے کہ وہ مغربی ممالک جو فخریہ انداز میں عالمی انسانی حقوق کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کو اس کا درس دیتے ہیں، وہ بھی غزہ کی نسل کشی پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔
تو ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر امریکا (اور دیگر یورپی ممالک) اسرائیل کی اس قدر مضبوط حمایت کیوں کررہا ہے؟ یہ اشاریے مل رہے ہیں کہ امریکا مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ کھونے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے جو اس نے کئی سالوں میں اسرائیل اور دیگر عرب ممالک کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ علاقائی سطح پر ایران جبکہ عالمی سطح پر روس اور چین امریکا کے اثر و رسوخ کو سخت مقابلہ دے رہے ہیں۔
اسرائیل اب بھرپور کوشش کررہا ہے کہ وہ ایران کو اپنے ساتھ جنگ میں الجھا دے جس کا اصل مقصد ایران کو قابو میں کرنا ہوگا جوکہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اور اسرائیلی تسلط کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ تاہم ایران کو شکست دینا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اپنی حالیہ انٹیلی جنس ناکامیوں کے باوجود وہ عراق سے شام، لبنان تک، علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یمن کے معاملے پر تنازعات کے باوجود ایران سعودی عرب کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات کا خواہاں ہے۔ یہ سب اسرائیل کے لیے اچھی خبر نہیں۔
اسرائیل کی جانب سے پہلے بھی ایران کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ جب اس نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر میزائل حملہ کیا۔ اس کے بعد ایران نے جوابی کارروائی بھی کی تھی لیکن یہ کشیدگی، جنگ میں تبدیلی نہیں ہوئی کیونکہ اس وقت امریکا تصادم کی صورت میں جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں تھا۔
اسمعٰیل ہنیہ کی شہادت کی حالیہ پیش رفت ایران کو جنگ کے لیے اُکسانے کی دوسری اسرائیلی کوشش ہے اور اسے گمان ہے کہ امریکی حمایت کی بدولت وہ یہ جنگ جیت بھی سکتا ہے۔ اسرائیل کے لیے مایوس کُن یہ تھا کہ امریکا اور ایران دونوں ہی اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر جنگ سے اجتناب برتے ہوئے ہیں۔
تاہم اسرائیل مسلسل ایران کا صبر آزما رہا ہے اور امید کررہا ہے کہ بڑی جنگ چھیڑ کر وہ غزہ پر اپنی مجرمانہ کارروائیوں سے عالمی ممالک کی توجہ ہٹا سکتا ہے۔ اس عمل کے دوران وہ ’عظیم اسرائیل‘ بنانے کی خواہش بھی کرے گا جو اس کا ہمیشہ سے خواب رہا ہے۔
عالمی سطح پر مروجہ ورلڈ آرڈر ٹوٹ چکا ہے جبکہ نیا عالمی توازن قائم ہونا باقی ہے۔ امریکا، تیزی سے عالمی منظرنامے میں عالمی قوت کے طور پر ابھرنے والے چین اور دوبارہ عالمی طاقت بننے کے خواہاں روس سے طاقت کے حصول میں کوشاں ہے۔ امریکا جسے عسکری صلاحیتوں کے اعتبار سے واضح برتری حاصل ہے، کوشش کرے گا کہ چین کو ایک تنازع کا حصہ بنائے تاکہ چین نے جو معاشی اور عسکری استحکام حاصل کیا ہے، وہ اسے گنوا دے۔
ماسکو کو یوکرین میں الجھا دینے کے بعد واشنگٹن دو عالمی تنازعات جنوبی بحیرہ چین اور تائیوان یا مشرقِ وسطیٰ میں سے ایک میں چین کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ امریکا کی مسلسل اشتعال انگیزیوں کے باوجود چین نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب تک تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین کے تنازع سے گریز کیا ہے۔
چین مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں بھی ملوث ہونے سے اجتناب کررہا ہے جبکہ اس کے بجائے چین نے فلسطینی دھڑوں کے درمیان اتحاد اور اس سے قبل ایران-سعودی سفارتی مفاہمت میں ثالثی کا کردار ادا کرکے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
حماس سربراہ جو امن مذاکرات میں شامل تھے، ان کی شہادت کے بعد سے مشرقِ وسطیٰ میں بڑی جنگ کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیلی اشتعال انگیزی اتنی شدید اور سنگین ہے کہ ایران کے پاس جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایران، امریکا اور تمام عرب ممالک نہیں چاہتے کہ خطے میں بڑی پیمانے پر جنگ ہو کیونکہ ایسی جنگ کے خطے اور اس سے باہر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
جہاں تک چین کی شمولیت کی بات ہے، اس کی ہمیشہ سے یہی ترجیح رہی ہے کہ وہ کسی ایسی جنگ کا حصہ نہ بنے جو اس کی قومی ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بن سکتی ہو۔