9 اگست کو بھارتی شہر کولکتہ میں 31 سالہ خاتون ڈاکٹر کو ریپ کے بعد انتہائی دردناک طریقے سے قتل کردیا گیا وہ بھی اس وقت کہ جب وہ ہسپتال میں ڈیوٹی پر مامور تھیں۔
رات 12 سے کچھ دیر قبل ڈاکٹر نے اپنے والدین سے فون پر بات کی لیکن اس حوالے سے اہم سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ صبح 3 سے 10 بجے تک کسی نے دیکھا کیوں نہیں کہ ڈاکٹر گمشدہ ہیں یا انہیں اس دوران ڈیوٹی پر کیوں نہیں بلایا گیا۔ صبح ان کی خون آلود لاش ہسپتال کے سیمنار روم سے ملی۔
اس انسانیت سوز جرم کے بعد ملک بھر کے ڈاکٹرز سراپا احتجاج ہیں۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس واقعے کی کوریج کی لیکن ساتھ ہی کچھ حوالے سے پردے ڈالنے کی کوشش بھی کی۔
کولکتہ ہائی کورٹ نے ریاستی پولیس کے ہاتھ سے کیس لے کر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی کو معاملات سونپنے کا حکم دیا ہے۔ بھارت کے چیف جسٹس نے بھی اس بیہمانہ واقعے کا ازخود نوٹس لیا اور ان سے توقع ہے کہ وہ کوئی آبزرویشن یا حکم جاری کریں گے۔
یہاں سی بی آئی براہ راست وزیرداخلہ امیت شاہ کے ماتحت کام کرتی ہے۔ حالیہ برسوں میں سیاسی حریفوں اور فکری اختلاف رائے رکھنے والوں کو ہراساں کرنے میں استعمال ہونے کی وجہ سے ایک غیرجانبدار ایجنسی کے طور پر سی بی آئی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ریاست کا گورنر جو بھارتی صدر کی نمائندگی کرتا ہے اور حکومت کے احکامات کی پیروی کرتا ہے، وہ بھی اپوزیشن رہنما وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی زیرِانتظام مغربی بنگال کی حکومت پر کولکتہ کیس کے حوالے سے مختلف کوتاہیوں کے الزامات عائد کررہے ہیں۔ اپوزیشن کی ماتحت بہت سی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے گورنرز پر بی جے پی کی پالیسیز پر عمل کرتے ہوئے اپوزیشن مخالف کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
تاہم ممتا بینرجی کے لیے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس وزارت اعلیٰ کے علاوہ مغربی بنگال کی صحت اور لا اینڈ آرڈر کا قلمدان بھی ہے۔ تو ہوا یہ کہ جب انہوں نے کولکتہ واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ریلی نکالی تو لوگوں نے انہیں سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ انتظامی معاملات انہیں کے ہاتھ میں ہیں۔
اس اندوہناک واقعے کو بھی سیاسی رنگ دے کر سیاسی محاذ آرائی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بی جے پی موجودہ صورت حال کو وزیر اعلیٰ کو کمزور کرنے کے سنہری موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے خاص طور پر اب کہ جب مودی کو حالیہ انتخابات میں اکثریت نہ ملنے پر حکومت بنانے کے لیے مغربی بنگال کی ممتا بینرجی کی حمایت کی ضرورت پڑی۔
کمیونسٹ پارٹی جس نے 4 دہائیوں تک مغربی بنگال کی حکومت چلائی وہ بھی منظرنامے میں شامل ہونے کی کوشش میں ممتا بینرجی کے خلاف مہم کا حصہ بن چکی ہے لیکن شاید انہیں اندازہ نہیں کہ ایسا کرنے سے وہ خود کو نہیں بلکہ بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
ایک ملزم کی گرفتاری عمل میں لائی جاچکی جبکہ مختلف رپورٹس میں گینگ ریپ کے امکانات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں۔ مقتول ڈاکٹر کے والد کہتے ہیں انہیں امید ہے کہ مجرمان کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ یہی وہ موقع ہے کہ جب ہمارے ذہن کے پردے میں 2012ء کے ہولناک ریپ واقعے میں متاثرہ لڑکی کی والدہ آتی ہیں۔
آشا دیوی کی 22 سالہ فزیوتھراپسٹ بیٹی جو بھارتی میڈیا میں نربھایا (بےخوف) کہلائی گئیں، 16 دسمبر 2012ء کو دہلی کی گنجان سڑکوں پر چلتی بس میں گینگ ریپ کیا گیا۔ بس ڈرائیور سمیت شراب کے نشے میں دھت 6 مجرمان نے یکے بعد دیگرے نربھایا کا ریپ کیا۔ وحشیانہ فعل کے بعد ملزمان نے لڑکی کو برہنہ حالت میں فلائی اوور کے نیچے مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ گشت میں مامور پولیس کی گاڑی کو جب نربھایا ملیں تو اس وقت وہ زندہ تھیں۔ مقامی ہسپتال کے بعد مزید علاج کے لیے انہیں سنگاپور منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکیں۔
اس مقدمے کے 4 ملزمان کو پھانسی ہوئی جبکہ ایک نے خودکشی کرلی۔ اس واقعے میں ایک نابالغ لڑکا بھی ملوث تھا جوکہ سب سے زیادہ سفاک تھا۔ لیکن 2015ء میں اسے نابالغ افراد کے حراستی مرکز سے رہا کردیا گیا۔
نربھایا کی والدہ آشا دیوی سے کولکتہ واقعے کے حوالے سے دریافت کیا گیا۔ انہوں نے بے جھجک کہا کہ ان کی بیٹی کے قاتلوں کو پھانسی ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔
ایک ایسی سڑن جو جڑوں تک سرایت کرچکی، اس حوالے سے بھارت کے ججز کیا کرسکتے ہیں؟
بھارت میں ریپ کے واقعات رونما ہونا عام بات ہیں اور یہ غیرمتوقع نہیں کہ زیادہ تر متاثرین معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارتی میڈیا جو زیادہ تر اوپری طبقات کے مسائل پر توجہ دیتا ہے، وہ نچلے طبقے میں تیزی سے پھیلتی اس بیماری کے خلاف آواز اٹھانے میں ناکام ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے 2022ء کے اعداد و شمار کے مطابق 2015ء اور 2020ء کے درمیان ریپ کے رپورٹ ہونے والے واقعات میں 45 فیصد دلت خواتین تھیں۔ اور یاد رہے یہ شرح صرف رپورٹ ہونے والے کیسز کی ہے۔
اعداد و شمار کہتے ہیں بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 10 دلت خواتین اور لڑکیوں کے ریپ کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ جب کولکتہ میں یہ ہولناک فعل ہورہا تھا، تب ملک کے کسی اور حصے میں کسی نامعلوم خاتون کو بھی ریپ کا نشانہ بنایا جارہا ہوگا جوکہ شاید رپورٹ ہی نہ ہوا ہو۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2016ء-2015ء کے مطابق قبائل (آدیواسی یا مقامی بھارتیوں) کی خواتین میں جنسی تشدد کی شرح سب سے زیادہ 7.8 فیصد ریکارڈ کی گئی، جس کے بعد ہندوؤں کی ذاتوں (دلت) میں 7.3 فیصد اور پھر دیگر پسماندہ طبقات میں خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی شرح 5.4 فیصد ہے۔ صرف موازنے کے لیے بتاتا چلوں کہ وہ خواتین جو ذات اور قبیلے کی وجہ سے پسماندہ نہیں ہیں، ان کے خلاف جرائم کی یہی شرح 4.5 فیصد ہے۔
اگر ججز کو اس حوالے سے کچھ کرنا ہے تو انہیں سب سے پہلے عدلیہ پر ہی نظر ڈالنی ہوگی۔ عدلیہ سب سے زیادہ یہی کرسکتی ہے کہ وہ مثال کے طور پر حکمرانوں کے قریبی سمجھے جانے والے ریپ کے سزا یافتہ مجرمان کو پیرول دینے کا سلسلہ روک دے۔
لیکن ایک نیک نیت جج بھی کچھ نہیں کرسکتا کہ جب تین رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے سابق بھارتی چیف جسٹس ہی 23 سالہ ریپ کے ملزم سے پوچھیں کہ کیا وہ متاثرہ لڑکی سے شادی کرے گا؟
سابق چیف جسٹس نے کہا تھا، ’اگر تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہاری مدد کرسکتے ہیں۔ اگر نہیں تو تم اپنی نوکری گنوا دو اور جیل جاؤ‘۔
5 ہزار مشتعل خواتین کارکنان کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس شرد بوبڈے کو لکھے گئے خط کے مطابق، ملزم ’اسکول جانے والی نابالغ لڑکی کا پیچھا کرنے، اسے باندھنے، کپڑے کے ذریعے منہ بند کرنے اور بار بار ریپ کرنے کا مرتکب ہے۔ جبکہ اس نے متاثرہ لڑکی کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے، تیزاب پھینکنے اور بھائی کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دیں۔۔۔ ریپ کی حقیقت اس وقت سامنے آئی کہ جب متاثرہ لڑکی نے خودکشی کرنے کی کوشش کی‘۔
اس حوالے سے بھارتی ججز کچھ اور کرسکتے ہیں۔ وہ مجرمان کو ملنے والے پیرول ختم کرسکتے ہیں۔ کولکتہ واقعے کے بعد بھی دو سیاسی بااثر ملزمان کو پیرول دیا گیا۔
ماضی میں سپریم کورٹ مثبت فیصلے دیتی رہی ہے۔ بلقیس بانو کے ریپ کے مجرمان کو قبل از وقت رہائی ملی لیکن سپریم کورٹ نے انہیں واپس جیل بھیج دیا تھا۔
ججز خواتین کے خلاف ثقافتی طور پر حمایت یافتہ جرائم کا سدِ باب کیسے کرسکتے ہیں؟ ایک دلت خاتون کو اس کے شوہر نے ریپ کے ملزمان کے چنگل سے چھڑایا لیکن اس سے کہا گیا کہ وہ اپنی بیوی کی پاک دامنی کو ثابت کرنے کے لیے ابلتے ہوئے پانی میں سے سکا نکالے۔
ناقابلِ فہم اور فرسودہ روایات سے خواتین کی حفاظت کے لیے صرف سخت قوانین ناکافی ہیں بلکہ بہتری کے لیے بھارت کو بڑی سماجی تبدیلی درکار ہے۔