دنیا کے جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں ریپ حوس کا معاملہ نہیں لیکن کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ جرم طاقت اور غلبہ حاصل کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔
پریح میمن
9 اگست کو کولکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج میں پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹر کو ریپ کے بعد قتل کردیا گیا جسے حالیہ برسوں میں برصغیر میں خواتین کے خلاف ہونے والے ہولناک جرائم میں سب سے سفاک میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
مقتولہ کے ساتھیوں کے مطابق 31 سالہ ڈاکٹر 36 گھنٹے کی شفٹ کے بعد ایک سمینار روم میں سونے گئی تھیں کیونکہ ہسپتال کے احاطے میں ڈاکٹروں کے لیے ڈارمز یا آرام کرنے کے کمرے موجود نہیں۔ اگلے دن ان کی خون آلود لاش برآمد ہوئی۔
تفتیش کاروں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک پولیس رضاکار کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ کیس کو اب سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سنبھال رہا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے مقتولہ کے جسم پر ہونے والے تشدد کی دل دہلا دینے والی تفصیلات کو اس انداز میں پیش کیا کہ مضبوط اعصاب کے لوگ بھی کمزور پڑ جائیں۔ یہ سب دیکھنے کے بعد خواہش پیدا ہوئی کہ کاش وہ جلدی مر جاتی تاکہ اسے اس وحشیانہ جبر سے نہ گزرنا پڑتا۔
اس بھیانک فعل کے بعد بھارت بھر میں اشتعال عروج پر ہے۔ ملک بھر میں غیرایمرجنسی ڈاکٹرز کی ہڑتال ہے جو خواتین بالخصوص ڈاکٹرز کو تحفظ فراہم کرنے کے مطالبات کررہے ہیں۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ سڑکوں پر آئے اور مقتولہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔
منگل کو سماعت کے دوران بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ واقعہ ’قوم کے ضمیر کے لیے دھچکا ہے‘ اور سپریم کورٹ نے درست تفتیش نہ کرنے پر متعلقہ حکام پر تنقید کی۔ اعلیٰ عدالت نے مقتولہ کا نام اور سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کیے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ بھارتی آئین میں ریپ متاثرین کے نام لینے کی سخت ممانعت ہے اور جو نام لیتے ہیں انہیں جرمانہ یا دو سال تک کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
بہت سے حلقوں کے خیال میں یہ حالیہ پیش رفت خطے میں تبدیلی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوسکتی ہے اور امید کررہے ہیں کہ اس اندوہناک واقعے کے بعد تبدیلی آئے گی۔ جبکہ کچھ حلقے اتنے پُرامید نہیں۔
یہ مقدمہ برصغیر میں خواتین کے خلاف صدیوں سے جاری معاشرتی عدم مساوات اور کنٹرول کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب اس تناظر میں دیکھا جائے کہ ہمارا عمومی کلچر خواتین کے تئیں رویوں کو کس طرح تشکیل دیتا ہے تو یہ معاملہ اتنا چونکا دینے والا نہیں۔ اس قتل کے حوالے سے لوگ بہت سی باتیں کہتے ہیں کہ یہ المناک ہے، تکلیف دہ ہے، خوفناک ہے۔
تاہم یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا ہر پہلو منفی ہی ہے۔
پہلی بار نہیں
16 دسمبر 2012ء کو دہلی میں نربھایا کا ریپ اور قتل عالمی میڈیا کی شہ سرخی بنا کہ جس میں 22 سالہ لڑکی کا چلتی ہوئی بس میں گینگ ریپ کرکے لوہے کے راڈ سے بار بار حملہ کیا گیا۔ شدید زخموں کی تاب نہ لا کر نربھایا 29 دسمبر کو جان کی بازی ہار گئی۔
گینگ ریپ کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے برصغیر کے لوگوں کے لیے اب یہ نیا نہیں۔
7 ستمبر 2020ء کو ایک کھیت میں ایک خاتون کا اس کے بچوں کے سامنے اس وقت گینگ ریپ کیا گیا جب لاہور سیالکوٹ موٹر وے کے قریب ان کی گاڑی خراب ہوئی۔ 2020ء کے اوائل میں ہی ایک 25 سالہ دو بچوں کی ماں کا کراچی سے ملتان جانے والی ٹرین میں ٹکٹ چیکر کے ذریعے خالی ڈبے میں لے جا کر گینگ ریپ کیا گیا۔
سمجھ سے بالاتر ہے ایک عورت پر ایک ہی مرد کا حملہ کرنا کافی نہیں ہوتا جو متعدد مرد اس مکروہ اور گھناؤنے جرم کا حصہ بنتے ہیں۔
اگرچہ ان واقعات کی تو مذمت ہوجاتی ہے لیکن اسی نوعیت کے بہت سے واقعات فراموش کردیے جاتے ہیں۔
کولکتہ ریپ کیس کو ہی دیکھا جائے تو حقائق کو توڑ مروڑ کے پیش کیا گیا۔ یہ پہلا موقع نہیں اور اگر چیزیں ایسے ہی ہوتی رہیں تو یہ آخری واقعہ نہیں ہوگا۔
’ریپ کا متاثرہ کے لباس سے تعلق نہیں‘
4 جنوری کو سات سالہ زینب کو اپنے آبائی شہر قصور میں مدرسے جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا۔ چند دنوں بعد زینب کی لاش کوڑے دان سے ملی جس پر ریپ، تشدد کے نشانات پائے گئے جبکہ بچی کی موت گلا گھوٹنے سے ہوئی۔ ملزم کو سزا ہوئی اور اسے پھانسی دے دی گئی جبکہ یہ بھی سامنے آیا کہ مجرم نے دیگر 8 بچوں کا بھی ریپ کیا تھا۔
لاہور کے جنوب میں واقع قصور میں 2015ء میں چائلڈ پورنوگرافی کا بڑا نیٹ ورک بےنقاب ہوا جس میں 400 بچوں کی ویڈیوز شامل تھیں جنہیں ان کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
بچے کیسے لباس پہنیں کہ وہ ان سفاک درندوں کی نظروں میں نہ آسکیں؟ شلوار قمیض یا ٹی شرٹ کے ساتھ ٹراؤزر؟ کیسے وضاحت دی جاسکتی ہے کہ نابالغ کم سن بچوں کا ریپ لباس کی وجہ سے ہوا؟ ان کے ساتھ بدفعلی لباس کی وجہ سے تو نہیں ہوتی۔
لباس غیرمتعلقہ عنصر ہے جسے معاشرہ جنسی جرائم کی ناکام وضاحت کے لیے استعمال کرتا ہے اور ان لوگوں کو ڈھیل دی جاتی ہے جنہیں قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ لباس پہلے بھی اور کبھی بھی ریپ کی وجہ نہیں بن سکتا۔ ریپ کبھی بھی حوس یا جنون کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ تو طاقت اور غلبہ حاصل کرنے ہوتا ہے۔
ذہنی بیمار
جب نور مقدم کو اغوا، تشدد اور قتل کیا گیا تو ملزم کے دفاع نے ہر ممکن کوشش کی کہ ظاہر ظفر کو ذہنی مریض ثابت کیا جائے۔
کچھ عرصے بعد سارہ شاہ نواز کو ان کے شوہر نے بےدردی سے ورزش کے لیے استعمال ہونے والے ڈمبل سے قتل کردیا اور بہ ظاہر ملزم ’منشیات کا عادی سوشیوپاتھ‘ تھا۔
ریپ کے واقعات بار بار جیسے رونما ہو رہے ہیں، انہیں دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت میں لوگوں کی کتنی بڑی تعداد ذہنی مریض ہیں؟ مذکورہ بالا قتل کی تفصیلات نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنسی حملوں اور قتل کے واقعات مستقل بنیادوں پر ہوتے ہیں جو دو ممکنات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یا تو بہت زیادہ پاکستانی مرد ذہنی طور پر پریشان ہیں اور ملک نفسیاتی ہنگامی حالت میں ہے یا پھر خواتین کے خلاف جرائم ہماری ثقافت کا تسلیم شدہ اور مستقل حصہ بن چکے ہیں۔
اگر ان امکانات کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں لیے گئے تو اس ملک میں خواتین کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔
تو حل کیا ہے؟
کولکتہ میں جو ہوا وہ سانحہ نہیں۔ سانحہ ایک ایسا غیرمعمولی واقعہ ہوتا ہے جو اچانک ہو اور لوگوں کو اس سے دھچکا لگے۔ یہ غیر متوقع ہوتا ہے جس کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔
سانحہ تاثر دے گا کہ یہ انتہائی غیرمعمولی واقعہ ہے جبکہ مجموعی طور پر خواتین محفوظ ہیں۔
لہٰذا یہ سانحہ نہیں۔ یہ نظام کا المیہ اور جبر ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس معاشرے میں ہم درندوں کے درمیان رہ رہے ہیں اور معاشرے نے صدیوں تک اس ریپ کلچر کو جنم دیا اور اسے تحفظ فراہم کیا جس نے خواتین کی جانب مردوں کے شرمناک رویوں کو عام بنایا ہے۔
یوٹیوب پر ایک ویڈیو ہے جس کا عنوان انگریزی میں اس سے کچھ مماثل ہے کہ ’ریپ دونوں فریقین کی آمادگی سے ہوتا ہے: ہریانہ کے ریپ کلچر کی اندرونی کہانی‘، اس ویڈیو نے آشکار کیا کہ بھارتی ریاست میں ریپ کے حوالے سے کیا تصورات پائے جاتے ہیں۔ یہ دیکھنے کے بعد یہ یقین کرنا مشکل نہیں کہ برصغیر دیگر علاقوں میں بھی لوگوں میں یہی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔
دنیا کے جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں ریپ حوس یا جنون کا معاملہ نہیں لیکن کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ جرم طاقت، کنٹرول اور غلبہ حاصل کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔ یہ خیالات ایسے معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو خواتین کو قابو میں رکھنا پسند کرتا ہے۔ یہاں خواتین کو نظام کی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ انہیں غلطی سے یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ معاشرہ انہیں بھی وہی مراعات اور قوانین کا تحفظ فراہم کرے گا جو ایک مرد کو میسر ہیں۔
یہ سلسلہ کیسے رکے گا؟
ہمارے سامنے سیکڑوں سالوں کی گندگی اور معاشرے کے شرمناک حقائق ہیں۔ اس اعتقادی نظام کو ختم کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے جاری مسلسل اور فعال کوششوں کی ضرورت ہوگی جس میں انسانی حقوق کے حوالے سے آگاہی، تعلیم اور خواتین کے حقوق اور تحفظات کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے فوری اور مؤثر انصاف پر قومی ریاست کی توجہ شامل ہے۔ یہاں تک کہ ان عقائد کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کے لیے اخلاقیات، مساوی صنفی مراعات اور فوری مناسب انصاف کے نظام کے نفاذ کے بارے میں بلند آواز اور بار بار آگاہی کی ضرورت ہے۔
ریپ مخالف کلچر کے ذریعے ہی معاشرے میں بڑھتے ریپ کلچر کو لگام ڈالی جاسکتی ہے۔ اور برصغیر کیسے یہ ریپ مخالف کلچر کو جنم دیتا ہے اس حوالے سے عظیم ذہنوں کو سوچنا ہوگا۔
ایک نوجوان کے طور پر میرے ذہن میں 1993ء کا مشہور گانا کیپ یا ہیڈ اپ گونجتا ہے جو اپنے قتل کے چند سال قبل ٹوپاک شاکور نے لکھا تھا:
’ہم سب ایک عورت سے پیدا ہوئے ہیں، ہمارا نام ایک عورت سے منسوب ہے اور میں حیران ہوں کہ ہم اپنی خواتین کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں، ہم اپنی خواتین کا ریپ کیوں کرتے ہیں، کیا ہم اپنی خواتین سے نفرت کرتے ہیں؟ میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خواتین کے لیے جانیں لیں، اپنی خواتین کے زخموں کا مرہم بنیں، اپنی عورتوں کے لیے کوشش کریں اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ایسی نسل پیدا ہوگی جو بچے پیدا کرنے والی خواتین سے نفرت کرے گی کیونکہ مرد عورتوں کی طرح بچے پیدا نہیں کرسکتے۔ تو کیا حقیقی مرد خواتین کے لیے کھڑے ہوں گے؟ میں جانتا ہوں کہ آپ تنگ آچکی ہیں لیکن آپ ہمت نہ ہاریں‘۔