ساہیوال: سعودی عرب سے آئے بھائی نے جائیداد کیلئے سوتیلی بہنوں کو قتل کردیا

Pinterest LinkedIn Tumblr +

صوبہ پنجاب کے ضلع ساہیوال میں بھائی نے بیرون ملک سے آ کر جائیداد کے لیے دو بہنوں کو قتل کرنے کے بعد لاشیں دریائے راوی میں پھینک دیں اور واپس سعودی عرب روانہ ہو گیا۔

یہ افسوسناک واقعہ ضلع ساہیوال کے تھانے نور شاہ کے علاقے میں واقع گاؤں جی ڈی/50 میں پیش آیا جہاں 16 سالہ عائشہ اور اس کی 13 سالہ بہن فاطمہ کو ان کے بھائی نے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔

نور شاہ پولیس نے واقعے کے ایک ماہ بعد لڑکیوں کے چچا جعفر علی کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302، 201، 109 اور 34 کے تحت قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔

پولیس نے بیرون ملک بھاگ جانے والے ملزم کے والد ذاکر کو گرفتار کیا جس نے مبینہ طور پر اپنی بیوی نسرین کے ساتھ مل کر دریائے راوی میں لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں مدد کی تھی۔

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ذاکر کی جائیداد کی وراثت پر اس کی دو بیٹیوں اور پہلی شادی سے ہونے والے بیٹے علی حمزہ کے درمیان تنازع تھا جو قتل کی اصل وجہ تھی لیکن لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔

ذاکر نے پہلی شادی شبنم نامی خاتون سے کی جس سے ان کا ایک بیٹا علی حمزہ ہے اور شبنم کے انتقال کے بعد میں نسرین سے شادی کی جس سے اس کی دو بیٹیاں عائشہ اور فاطمہ تھیں جو بالترتیب نویں اور پانچویں جماعت میں پڑھتی تھیں۔

پڑوسیوں نے بتایا کہ ذاکر کی پہلی بیوی کے بچوں کے اپنی سوتیلی بہنوں کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں تھے اور دونوں بہنیں ذاکر کی نصف زرعی جائیداد کی حقدار تھیں۔

رپورٹس کے مطابق علی حمزہ گزشتہ ماہ پاکستان واپس آیا اور دونوں لڑکیوں کو لوہے کی راڈ سے اس وقت مار کر قتل کر دیا جب وہ صحن میں سو رہی تھیں۔

نور شاہ کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر اللہ دتا نے بتایا کہ علی حمزہ کو شبہ تھا کہ اس کی سوتیلی بہنوں کے ’سانپال‘ قبیلے کے نوجوانوں کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قتل کے وقت ذاکر اور نسرین بھی اسی گھر میں موجود تھے اور واقعے کے بعد علی حمزہ نے ذاکر اور نسرین کے ساتھ مل کر اسی رات گاؤں سے 12 کلومیٹر دور دریائے راوی میں لاشوں کو ٹھکانے لگایا۔

پولیس کی ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ علی حمزہ نے اپنی سوتیلی ماں اور والد کو قائل کیا کہ لڑکیوں کی حرکتوں سے خاندان کی ساکھ خراب ہو رہی ہے اور مبینہ طور پر اس نے اپنی سوتیلی ماں اور والد سے قرآن پر حلف لیا اور وعدہ کیا کہ معاملہ خفیہ رکھا جائے گا۔

اگلے دن ملزم سعودی عرب واپس چلا گیا، جبکہ اس کی سوتیلی ماں نسرین پہلے بورے والا میں اپنے والدین کے گھر اور پھر لاہور میں اپنی بہن کے گھر چلی گئی۔

اہل خانہ نے ذاکر سے ان کی بیٹیوں کے بارے میں دریافت کیا لیکن اس نے دعویٰ کیا کہ وہ لاہور میں ننھیال چلی گئی ہیں۔

تاہم جب جعفر علی اس معاملے پر مصر رہے تو نور شاہ پولیس نے ذاکر کو گرفتار کر لیا جبکہ نسرین 9 ستمبر تک ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں البتہ دونوں لڑکیوں کی لاشوں کا ابھی تک پتا نہیں چل سکا۔

ایس پی انویسٹی گیشن طاہر کھچی نے بتایا کہ پولیس کو خون آلود گاڑیاں ملی ہیں جہاں لڑکیوں کو لوہے کی سلاخ سے مارا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو ایک ماہ قبل دریا میں پھینک دیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود پولیس نے لاشوں کی تلاش کے لیے ریسکیو 1122 سے درخواست کی ہے۔

ایس ایچ او نے بتایا کہ پولیس علی رضا تک ان کے موبائل فون کے ذریعے پہنچی اور انہیں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے وطن واپس لایا جائے گا۔

علی رضا نے اپنی سوتیلی بیٹیوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہیں ان کے ناجائز تعلقات کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔

ڈی پی او فصیل شہزاد نے کہا کہ اگر علی رضا مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے وطن واپس نہیں آتے تو پولیس ان کی حوالگی کے لیے انٹرپول سے مدد طلب کرے گی۔

Share.

Leave A Reply