ہما یوسف
گزشتہ ہفتے وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے سینیٹ کو بتایا کہ بلوچستان میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملوں کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے اگلے سربراہی اجلاس کو ناکام بنانا ہے جو اکتوبر میں حکومتِ پاکستان کی میزبانی میں اسلام آباد میں منعقد ہوگا۔
عسکریت پسند حملوں کو شنگھائی تنظیم سے جوڑنا بتاتا ہے کہ یہ اجلاس پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے۔ لیکن مجموعی طور پر پاکستان کی وسیع تر خارجہ پالیسی کے منظر نامے میں شنگھائی تعاون تنظیم کتنی اہم ہے؟
بلوچستان کے حملوں کو شنگھائی تنظیم سے منسلک کرنے اور ان حملوں کے مضمرات پر توجہ دینے کا بنیادی اور سب سے بڑا عنصر پاک-بھارت دو طرفہ تعلقات پر مرکوز ہے کیونکہ پاکستان کی جانب سے مدعو کیے جانے کے بعد ابھی دہلی نے اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
2016ء سے پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنسز میں بھارت نے کبھی شرکت نہیں کی جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھارت کے اعلیٰ سطح کے حکام کی شرکت، تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش نہ کرنے کی روش کے متضاد ہوگا جوکہ دہلی نے اسلام آباد سے کسی قسم کی بات چیت نہ کرکے اپنائی ہوئی ہے۔
بھارت کی شرکت کرنے یا نہ کرنے سے قطع نظر، علاقائی دہشت گردی سربراہی اجلاس کے ایجنڈا میں سب سے اولین نقطہ ہوگا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیادیں سیکیورٹی تعاون سے جڑی ہیں جبکہ یہ تنظیم ’تین بُری قوتوں‘ سے نرد آزما ہے جن میں دہشت گردی، علحیدگی پسندی اور مذہبی انتہا پسندی شامل ہیں۔
حالیہ برسوں میں سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے مباحثوں میں توجہ اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ علاقائی دہشت گردی کو بھڑکانے میں افغانستان کس طرح اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ افغانستان بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن ہے لیکن طالبان کی حکومت کو اس کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا کیونکہ تنظیم کے اراکین ممالک اتفاقِ رائے نہیں کرپائے کہ افغانستان سے کیسے بات چیت کی جائے۔
تاہم اراکین متفق ہیں کہ افغانستان کا استحکام اور مؤثر انسدادِ دہشت گردی خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی افغان طالبان کی پیش کش کو مسترد کردینے کے تناظر میں توقع کی جا سکتی ہے کہ سربراہی اجلاس میں افغانستان کے عسکریت پسند گروہوں سے نمٹنے کے حوالے سے بات چیت ہوسکتی ہے۔
بلوچستان حملے بھی زیرِبحث آئیں گے۔ بھارت نے اکثر مواقع پر ڈھکے چھپے الفاظ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے فورمز پر علاقائی دہشت گردی میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے بیانات دیے ہیں۔ طویل عرصے سے بلوچ علحیدگی پسندوں کو حاصل بھارت کی پشت پناہی کے بارے میں پاکستان کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کو اکتوبر کے سربراہی اجلاس میں جواب دینے کا موقع ملے گا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ امکان انتہائی کم ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں محض بات چیت سے زیادہ کچھ ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ یہ وسعت اور اہمیت اختیار کررہا ہے جبکہ کچھ حلقے تو اسے نیٹو کا یوریشین ہم پلہ بھی قرار دے رہے ہیں، یہ فورم ایک بلاک کی حیثیت سے اپنے اراکین کے لیے بامعنیٰ اقدامات لینے کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔
پاک-بھارت اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بھارت اور چین کے درمیان بھی تناؤ ہے جس کی بنا پر دہلی، بیجنگ کی زیرِقیادت کسی بھی تنظیم کی حمایت کرنے میں کترا رہا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے سے تناؤ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ اس میں فرقہ وارانہ اختلافات بھی ہیں (جیسے ایران اور افغانستان کے درمیان)، جبکہ وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان بنیادی ناراضی ہے جو شنگھائی تعاون تنظیم کے چھوٹے، سیکورٹی پر مرکوز علاقائی تنظیم سے بڑھ کر یوریشیائی اور مغرب مخالف عزائم کے ساتھ ایک جغرافیائی سیاسی پلیٹ فارم میں تیزی سے سے تبدیل ہونے پر تحفظات رکھتے ہیں اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔
مثال کے طور پر بیلاروس جولائی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بنا، ترکیہ نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت پر غور کررہا ہے جبکہ تنظیم خود بھی یورپ میں اپنا اثرورسوخ پھیلانے کے لیے ہنگری جیسے ممالک کو رکن بنانے پر غور کررہی ہے۔
جیسے جیسے سنگھائی تعاون تنظیم وسعت اختیار کررہی ہے، ویسے ویسے اس کا بنیادی مقصد محض علاقائی سیکیورٹی پر مرکوز نہیں رہا اور اب یہ ممالک کے درمیان تعلقات کو بڑھانے، توانائی کے انفرااسٹرکچر میں شراکت، مقامی کرنسی کی لین دین کو ممکن بنانے کے لیے بینکنگ پلیٹ فارمز کو بہتر بنانے (تاکہ ڈالرز پر انحصار کو کم سے کم کیا جاسکے) اور علاقائی تجارت کو بڑھانے پر بھی توجہ دے رہا ہے۔
لیکن چین اور بھارت کے درمیان معاشی مطابقت، اور چین کی اپنی ٹیکنالوجیز روس کے ساتھ شیئر کرنے میں ہچکچاہٹ، جوکہ روس کو حریف پروڈیوسر کے بجائے ایک صارف تک محدود کیے ہوئے ہے، ان تمام عوامل کی وجہ سے اقتصادی خواہشات کی تکمیل محدود ہوچکی ہے۔
روبن نیبلٹ اپنی کتاب ’دی نیو کولڈ وار‘ میں دلیل دیتے ہیں کہ چین اور روس گلوبل ساؤتھ میں ممالک تک رسائی اس لیے حاصل کررہے ہیں کیونکہ وہ مطلق العنانی سیاسی نظام کو عالمی سطح پر فروغ دینا چاہتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم جیسی کثیرالجہتی تنظیموں کو وسعت دینے اور اسے بااختیار بنانے کی ایک اور وجہ آمرانہ حربوں کو عام بنانا ہے جن میں آزادی اظہارِ رائے کو دبانا، قومی سلامتی کے نام پر عدلیہ کی آزادی کو کم اور محدود کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ خدشہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک ایسا گروپ بن جائے گا کہ جہاں ممالک جمہوری اصولوں سے انحراف پر اتفاق رائے کریں گے۔
پاکستان جو خود کو مذاہب، فرقوں، اخلاقیات اور زبانوں کے معاملے میں متنوع اور نوجوانوں پر مرکوز جمہوریت قرار دیتا ہے، اسے بالخصوص شنگھائی تعاون تنظیم کے ہیڈ آف جنرل کونسل کے موجودہ سربراہ کی حیثیت سے، اس طرح کی صورت حال سے اجتناب برتنا چاہیے۔
پاکستان ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے یہ کرسکتا ہے کہ وہ افغانستان میں سیکیورٹی کے معاملات سے ہٹ کر وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی موضوعِ بحث بنائے۔ مثال کے طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین ان حالیہ اخلاقی ضابطوں سے حوالے سے کیا مؤقف اختیار کریں گے کہ جن میں افغان طالبان نے خواتین کی عوامی مقامات پر موجودگی کو بالکل ختم کردیا ہے؟
انسانی وقار اور سلامتی جیسے بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر شنگھائی تعاون تنظیم اپنے قیام کے حقیقی مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں کرپائے گا۔