ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے، بلاول بھٹو زرداری

Pinterest LinkedIn Tumblr +

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے تا کہ کسی اور وزیراعظم کو تختہ دار پر نہ لٹکایا جائے اور ملک کے عوام کو انصاف ملے۔

کراچی میں سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلق سندھ ہائیکورٹ سے تین نسلوں سےہے، ہم ایک دوسرے کو اندر اور باہر سے جانتے ہیں۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ اس خاندان اور جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اس ملک کو آئین دیا، ہماری تاریخ کچھ ایسی ہے کہ ہم نے آمرانہ دور بھی دیکھا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے 1973 کے آئین کو ایک آنکھ کی لرزش اور ہونٹوں کی جنبش سے اڑا دیا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طریقہ سے ہمارے معزز جج صاحبان آمر کو ایک ایسا کام کرنے دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ 10، 10 سال جمہوریت اور آئین کو بھول جاتے ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ہمارے آئین کو ایک کاغذ کا ٹکرا سمجھ کر پھاڑا گیا اور اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جج صاحبان نے آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اتنے کرپٹ ہیں کہ آپ پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، پاکستان کا جمہوری نظام ایسا ہے کہ ہم صرف ایک پی سی او جج برداشت کرسکتے ہیں، اگر ایک دفعہ ایک جج پی سی او کا حلف لیتا ہے تو تب آئین اور جمہوریت کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کی بحالی کے لیے نسلوں کی قربانیاں دیں تاکہ عوام پارلیمان میں ایسے نمائندوں کو منتخب کرکے بھیجیں جس سے ان کی مرضی کا آئین اور قانون بنے۔

انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے یہ طےکیا تھا کہ اگر پاکستان کے نظام کو ٹھیک کرنا ہے، جمہوریت بحال کرنی ہے اور عوام کے مسائل حل کرنے ہیں تو میثاق جمہوریت جیسے معاہدوں کو لاگو کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم پاس کرنے اور 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے بعد ہم نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نامکمل مشن کو پورا کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب افتخار چوہدری پی سی او جج تھے کوئی انقلابی نہیں، اس وقت شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ طےکیا تھا کہ آئینی عدالت بنے گی، عدالتی اصلاحات ہوں گی اور عوام کو فوری انصاف ملے گا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم نے اپنے ماضی سے سبق سیکھا ہے، ہم اپنی وکلاء برادری کی بہت عزت کرتے ہیں، قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوسکتی لیکن جج صاحبان نے 184 اور 186 کے نام پر خود کو اختیار دیا ہے کہ وہ آئین سازی کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے، عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں اور مجھے انصاف کے حصول کے لیے 45 سال انتظار کرنا پڑا۔

بلاول بھٹو کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہریوں کو فوری انصاف ملے اور کسی صوبے کے درمیان کوئی فرق نہ رہے تو پھر وفاقی آئینی عدالت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی آئینی عدالت میں ہر صوبہ کی برابر نمائندگی ہوگی، اس عدالت کا چیف جسٹس روٹیشن پر ہوگا اور ہر صوبہ کو اپنے چیف جسٹس کی نمائندگی کرنے کا موقع ملے گا۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے مزید کہا کہ ہمارے عدالتی نظام میں 15 فیصد سیاسی مقدمات میں 90 فیصد وقت لیا جاتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام کو انصاف فراہم کیا جائے تو جس کام کے لیے یہ ادارے بنے ہیں ان کو وہ کام کرنے دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 58 ٹو بی اور 63 اے آئین میں ایک ایسا ہتھیار تھا جس کو استعمال کرکے جمہوری حکومتوں کو غیر جمہوری طریقے سے گھر بھیجا گیا، اس کالے قانون کو ختم کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی گئی اور آخر کار اس کو ختم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 58 ٹو بی کا اختیار عدالت نے اپنے پاس رکھ کر منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا، عدالت نے آئین میں ترمیم کا اختیار اپنے پاس رکھ کر 63 اے کے فیصلہ میں آئین کو تبدیل کیا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر آپ وزیراعظم، کسی جج اور کسی ادارے کی نیت پر شک کرتے ہیں تو کریں لیکن میری نیت پر شک نہ کریں، آئین کی بالادستی کی جنگ میں خود لڑوں گا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام صوبوں کو منصفانہ نمائندگی حاصل ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے تاکہ کسی اور وزیراعظم کو تختہ دار پر نہ لٹکایا جائے اور اس ملک کے عوام کو انصاف ملے۔

’فلور کراسنگ کرنے والوں کے لیے سخت سزا ہونی چاہیے‘
خطاب کے بعد صحافیوں کی جانب سے فلور کراسنگ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا، برطانیہ کا نظام اٹھاکر دیکھ لیں وہاں کوئی اس قسم کی پابندی نہیں کہ وہ اپنی پارٹی پالیسی پر پابند ہوں، وہ اپنی پارٹی لائن توڑنے میں آزاد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 63 اے میں جو ترمیم لے کر آئے وہ پہلے نہیں تھی، جس میں ہم نے کہا کہ ممبر، آئینی ترمیم اور بجٹ، عدم اعتماد پر پابند ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی لائن کی پابندی کرے لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تو وہ ان کے پاس اختیار تھا کہ وہ اپن ووٹ ڈالے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ اس میں ہم نے یہ لکھا کہ اگر کوئی پارلیمنٹیرین ان اہم معاملات پر پارٹی لائن توڑ کر ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو وہ ووٹ گنا جائے گا، جبکہ ہمارے پاس اور نہ کسی عدالت کے پاس یہ اختیار ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ وہ کسی پارلیمنٹیرین پر پارٹی لائن فالو کرنے کی پابندی رکھے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ایک مقصد کے تحت 63 اے کا فیصلہ سنایا گیا، ہم نہیں چاہتے کہ فلور کراسنگ آسان ہو، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا کرنے والے کے لیے سخت سزا ہو اور جب اسے یہ خطرہ ہوگا کہ فلور کراسنگ کی صورت میں اس کے حلقے میں ضمنی انتخاب ہوگا تو وہ اپنے ووٹ پر سوچے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ کہا جائے گا کہ فلور کراسنگ پر اس پارلیمنٹیرین کو تاحیات نااہل کردیا جائے گا اور اس کا دیا گیا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا، تو اس کا مطلب آپ اس ممبر کو جسے بجٹ پسند نہیں یا پھر وہ آئی ایم ایف کی شرائط سے متفق نہیں یا پھر وہ آئینی ترمیم پر رضا مند نہیں لیکن پھر آپ اسے تاحیات نااہلی کی سزا پر دھمکا کر مجبور کررہے ہیں کہ وہ اس پر ووٹ دے۔

Share.

Leave A Reply