چالیس سالہ تعلیمی جدوجہد کی ایک کہانی: سکول سے گھر تک آخری سفر، لگام اعلی عہدوں پر فائز سابق طلبا کے ہاتھ میں

Pinterest LinkedIn Tumblr +

چالیس سالہ تعلیمی جدوجہد کی ایک کہانی: سکول سے گھر تک آخری سفر، لگام اعلی عہدوں پر فائز سابق طلبا کے ہاتھ میں

’میرا تعلق ضلع غذر کی وادی یاسین سے ہے۔ میرے والد صوبیدار میجر ریٹائرڈ تھے۔ میں نے اسی وادی کے وادی مڈل سکول سے مڈل تک پڑھا تھا۔ مڈل کا امتحان دینے کے لیے برفباری میں یہاں سے سو کلو میٹر دور پیدل چل کر گیا تھا۔‘

’جب میں اپنے پرائمری سکول (پہلی نوکری) میں گیا تو وہاں پر صرف چھ بچے تھے۔ میری پہلی تنخواہ پانچ سو روپیہ تھی۔ سکول کی حالت بھی انتہائی خراب تھی۔ دیواریں گرنے والی تھیں۔ طالب علموں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔ جب میں نے سکول چھوڑا تو وہاں 150 بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔‘ یہی کامیابی بعد میں راجہ شیر بابر خان نے لڑکیوں کے سکول میں بھی حاصل کی۔

وہ کہتے ہیں ’میں پورے علاقے میں گھومتا، پھرتا اور وہ بچے جو اپنے مال مویشی کے ساتھ ہوتے ان سے بات کرتا، ان کو راغب کرتا کہ وہ سکول میں داخلہ لیں۔ پھر ان کے والدین کے پاس جاتا ان سے گزارش کرتا کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔‘

اب جب وہ بیالیس برس بعد ریٹائر ہوئے تو ان کے سابق شاگردوں نے ان کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔

ان کو گھر سے گھوڑے پر بٹھا کر سکول لایا گیا۔ اس موقع پر ان کے کئی طالب علم گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ اس موقع پر راجہ شیر بابر خان کے گھوڑے کی لگامیں ان کے سابق شاگردوں نے جن میں اعلیٰ فوجی اور سول حکام بھی شامل تھے تھام رکھی تھیں۔ یاسین ہائی سکول جہاں پر راجہ شیر بابر خان نے کئی سال تک خدمات انجام دیں وہاں پر ان کے اعزاز میں تقریب بھی منعقد کی گئی۔

Share.

Leave A Reply