تحریر :چاندنی کاکڑ
عوامی نیشنل پارٹی 2018کے عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی، جمعیت علماءاسلام بلوچستان نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے بعد سب سے زیادہ سیٹوں پر کامیاب ہونیوالی جماعت ہے۔ سال 2018میں صوبے کی عوام کے مفاد کی خاطر عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی کیساتھ ملکر مخلوط حکومت کا حصہ بنی جس میں بی این پی (عوامی) ایچ ڈی پی، پی ٹی آئی بھی شامل تھیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے منتخب اراکین جس میں صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی، انجینئر زمرک خان اچکزئی، ملک نعیم بازئی اور شاہینہ کاکڑ شامل ہیں نے صوبے کے وسیع تر مفادات کی خاطر حکومت کا ساتھ ملکر غریب صوبے کے عوام کی خدمت کے عدم کا اعادہ کیا۔
2018ءاسمبلی کی شروعات سے آج تک یعنی پہلے قائد ایوان جام کمال خان کے انتخاب سے لیکر دوسرے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو اور آج تک عوامی نیشنل پارٹی مخلوط حکومت کے شانہ بشانہ ایمانداری سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے گزشتہ 4سال کے عرصے میں عوامی نیشنل پارٹی کو صرف ایک وزارت دی جس میں انجینئر زمرک خان اچکزئی کو زراعت کا قلمدان کیا گیا اور رکن صوبائی اسمبلی ملک نعیم بازئی کو صوبائی مشیر ایکسائز مقرر کردیا گیا۔ بعد ازاں ایک مرتبہ بلوچستان عوامی پارٹی کے منتخب وزیر اعلیٰ جام کمال خان کیخلاف بلوچستان عوامی پارٹی کے ہی سینئر قائدین کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی جارہی تھی جس میں بھی عوامی نیشنل پارٹی نے منتخب جمہوری حکومت کا ساتھ دیا اور تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل سے واپس لے لی گئی۔ جس کے بعد وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور بلوچستان عوامی پارٹی کی سینئر قیادت نے عوامی نیشنل پارٹی سے کئی وعدے کئے جو وفا نہ ہوسکے۔
اس کے بعد سال 2021میں وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کیخلاف اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں اتحادیوں نے حکومت کی جانب سے وعدے وفا نہ ہونے کے باعث ایک بار پھر اختلافات کا کھل کر اظہار کیا اور منتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس میں عوامی نیشنل پارٹی نے عوام اور صوبے کے وسیع تر مفاد کی خاطر نومنتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا ساتھ دیا اور ایک نئے اُمید کیساتھ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ چلنے کا وعدہ کیا۔ جس کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کیخلاف بھی بلوچستان عوامی پارٹی کی مخالف گروہ بندی ہوئی جس نے موجودہ منتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا جو بری طرح ناکام ہوا۔ میر عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں بھی انجینئر زمرک اچکزئی کو وزیر اور ملک نعیم بازئی کو صوبائی مشیر مقرر کیا جس کو ملک نعیم بازئی نے مشیر کے عہدے کو رد کردیا اور مشیر کا عہدہ لینے سے صاف انکار کیا جس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی شائینہ کاکڑ کو صوبائی مشیر مقرر کیا گیا۔ جوکہ ” ہاتھی کے منہ میں زیرے کے برابر ہے“۔ میر عبدالقدوس بزنجو نے قائد ایوان کا حلف اٹھانے کے بعد حسب سابق عوامی نیشنل پارٹی سے روایتی وعدے کئے لیکن تاحال کوئی بھی وعدہ وفا نہ کرپائے۔
اس گزشتہ4سالہ مدت حکومت میں بلوچستان عوامی پارٹی سے جہاں اپنی پارٹی کے ساتھی ناراض اور ناخوش تھے وہی حکومت میں شامل دیگر اتحادی جماعتوں کیساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین اسمبلی، اے این پی کے کارکنان اور منتخب علاقوں کے عوام میں بھی شدید مایوسی پھیل گئی۔ جہاں عوامی نیشنل پارٹی نے گزشتہ 4سال بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت کا ساتھ دیا وہی بلوچستان عوامی پارٹی نے اپنے من پسند لوگوں کو نوازنے کے علاوہ عوامی مفاد عامہ کیلئے کسی بھی حکمت عملی پر عملدرآمد نہیں کی۔ گزشتہ 4سال دور حکومت میں عوامی نیشنل پارٹی کو کسی بھی طرح سے منتخب علاقوں کیلئے کسی بھی قسم کے ترقیاتی فنڈز مختص نہیں کئے بلکہ الٹا موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی عوامی نیشنل پارٹی کو انتقامی حدف کا نشانہ بناتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کی واحد صوبائی خاتون مشیر شائینہ کاکڑ کو بھی عہدے سے برطرف کردیا ۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت نے عوامی نیشنل پارٹی کے منتخب اضلاع کو گزشتہ 4سالہ دور حکومت میں کسی بھی بجٹ میں ترقیاتی منصوبہ شامل نہیں کیا اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی قیادت حکومت کی بے حسی اور پشتون دشمنی سے مزید مایوسی کا شکار ہوگئی۔ بارہا جمہوری طرز عمل اختیار کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے منتخب اراکین وزیر اعلیٰ بلوچستان کے پاس اپنے علاقوں کی ترقی کے منصوبوں کی عرضیاں لے کر گئے لیکن گزشتہ 4سال سے وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے چکر کاٹ کاٹ کر عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی قیادت بے بس ہوگئی۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی حکومت کی غیر جانبدارانہ روئےے کی وجہ سے گزشتہ روز اسلام آباد میں عوامی نیشنل پارٹی کی مرکزی قیادت نے اجلاس طلب کیا اجلاس کی قیادت مرکزی رہنماءامیر حیدر خان ہوٹی نے کی ۔ اجلاس میں مرکزی قیادت نے بلوچستان عوامی نیشنل پارٹی کے صوبے میں ہونیوالے ذیادتیوں کا جائزہ لیا اور عوامی نیشنل پارٹی کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماءامیر حیدر ہوتی نے کہا کہ اے این پی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان میری دعوت پر اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ وفاقی حکومت سے متعلق فیصلہ مرکزی پارٹی کرے گی اور مشاورت کیلئے اے این پی کے آئینی ادارے موجود ہیں۔اے این پی ایک جمہوری جماعت ہے جس میں فیصلے باہمی مشاورت اور آئینی تقاضوں کے مطابق ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ہر فیصلہ عوامی مفاد میں ہوگا اور جب بھی کوئی فیصلہ کریں گے تو سب کے سامنے آجائیگا۔عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین کے درمیان مشاورت کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے۔تمام فیصلے باہمی مشاورت سے ہی کئے جاتے ہیں جسکی توثیق پارٹی کے آئینی اداروں سے لی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے حکومت میں شامل اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے منتخب اراکین خصوصی طور پر صوبائی مشیر شائینہ کاکڑ کو عہدے سے ہٹھانے اور انکے منتخب اضلاع کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انتقامی حدف کا نشانہ بنانے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی قائدین نے بھی بلوچستان اسمبلی کے منتخب نمائندوں کے خدشات پر لبیک کرتے ہوئے آئندہ سخت لائحہ عمل طے کرنے کا فیصلہ کیا ۔
عوامی نیشنل پارٹی نہ صرف موجودہ دور حکومت میں بلکہ سابقہ ادوار میں بھی مختلف حکومتوں کیساتھ صوبے کی ترقی کی غرض سے شامل ہوئی یا اپوزیشن کا حصہ بنی لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار حکومت کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی کو لولی پاپ دکھاکر اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا اور پھر کچرے کی طرح پھینک دیا گیا۔ چونکہ ہر حکومت عوامی نیشنل پارٹی سے اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد انکا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں اسی لئے عوامی نیشنل پارٹی کے منتخب اراکین اسمبلی اپنے علاقے کے عوام اور کارکنوں کے سامنے ہمیشہ شرمندہ ہوتے آرہے ہیں لیکن ذرائع کے مطابق اس بار عوامی نیشنل پارٹی نے انتہائی لائحہ عمل طے کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ شاید منتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کیخلاف کسی قسم کی سخت اتحاد کا ساتھ دےکر یا اپوزیشن میں جاکر حکومت کو انکے وعدے یاد دلاتے ہوئے حکومت سے علیحدگی اختیار کرےگی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن کر موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کیخلاف ووٹ استعمال کرینگے اور اپنے نئے اہداف کی جانب گامزن ہوگی