پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں پر اراکین کو حلف اٹھانے سے روک دیا

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں پر اراکین کو حلف اٹھانے سے روک دیا۔

پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل قاضی انور نے کہا کہ قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے لیے آئین کا آرٹیکل 51 کا سیکشن 3 موجود ہے، آرٹیکل 106 کے تحت صوبائی اسمبلی کا طریقہ کار بھی موجود ہے۔

وکیل نے بتایا کہ کے پی اسمبلی میں 115 جنرل، 26 خواتین اور 4 اقلیت کی مخصوص نشستیں ہیں، اسمبلی میں آزاد ارکان 98 جبکہ دیگر جماعتوں کے 17 ارکان ہیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سوال کیا کہ کیا یہ درخواست خیبر پختونخوا اسمبلی کی حد تک ہے یا پھر پورے ملک کے لیے ہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک ہی فیصلہ ہے، الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جاسکتی ہے، آئین دیگر جماعتوں میں بقایا نشستیں تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس نے فہرست نہیں دی تو سیٹیں دوسروں کو بھی نہیں دی جاسکتیں، الیکشن ایکٹ 104 کہتا ہے کہ الیکشن سے پہلے فہرست دی جائے گی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سوال کیا کہ اگر آپ کو یہ مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتی تو کیا یہ خالی رہیں گی؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جن کو سیٹیں دی گئی ہیں، وہ حلف نہ لیں۔

جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے یا نہیں؟ وکیل قاضی انور نے بتایا کہ نوٹیفکیشن جاری ہوچکا ہے۔

عدالے نے کہا کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو حلف لینے سے روکے؟ ہم اس کو دیکھتے ہیں پھر کوئی آرڈ کریں گے۔

بعدازاں پشاور ہائیکورٹ نے حکم امتناع پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کو کل تک ممبران سے حلف نہ لینے کا حکم امتناع جاری کردیا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو پری ایڈمیشن نوٹس جاری کرتے ہوئے کل تک جواب جمع کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالتی حکم میں سوال کیا گیا کہ کیا اس عدالت کے پاس فیصلہ معطل کرنے کا اختیار ہے، کیا مخصوص نشستوں کیلئے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو عدالتی معاونت کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے لارجر بنچ کی تشکیل کیلئے کیس چیف جسٹس کو بھیج دیا۔

Share.

Leave A Reply