پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے شیر افضل مروت کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کرنے سے نقصان پہنچا، ممکنہ مذہبی مسائل کی وجہ سے مجلس وحدت مسلمین سے اتحاد کا فیصلہ تبدیل کرنے سے بہت بڑا نقصان ہوا۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’ان فوکس‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ میرے خیال میں واشنگٹن میں آئی ایف ہیڈ کوارٹر کے باہر احتجاج کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، یہ مقامی لوگوں کا احتجاج تھا اور آپ اسے کسی سیاسی جماعت کا احتجاج نہیں کہہ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا قرض اس لیے ضروری ہے کہ اسی پر بقیہ قرضوں کا بھی انحصار ہوتا ہے، ازخود آئی ایم ایف کا قرض اتنا اہم نہیں ہوتا کیونکہ یہ رقم اتنی زیادہ نہیں ہوتی لیکن اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ اس کی شرائط پوری ہوتی ہیں تو پھر بقیہ اداروں سے بھی قرض ملتے ہیں، اس لیے یہ ملک کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔شیر افضل مروت کی جانب سے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد کو نقصان قرار دینے کے حوالے سے سوال پر تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ شیر افضل مروت درست بات کررہے ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہمیں اس جماعت کے ساتھ جانا چاہیے جس نے الیکشن میں حصہ لیا ہو اور جس کا پارلیمنٹ میں کوئی نہ کوئی رکن ہو کیونکہ ہم مخصوص نشستوں کی وجہ سے کسی جماعت کا حصہ بننا چاہ رہے تھے اور ہم چاہ رہے تھے کہ کسی ایسی جماعت کے ساتھ جائیں جس نے لسٹ بھی دی ہو، انتخابات میں حصہ بھی لیا ہو اور ان کا کوئی رکن پارلیمنٹ بھی ہو تاکہ کوئی تنازع نہ کھڑا ہو اور ہمیں مخصوص نشستیں مل جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے عمران خان نے مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ اتحاد کا ہی فیصلہ کیا تھا، اس سے قبل شیرانی گروپ کا فیصلہ کیا تھا لیکن وہ دونوں فیصلے تبدیل ہوئے اور بالآخر سنی اتحاد کونسل کے ساتھ جانے کا فیصلہ ہوا حالانکہ یہ بتایا گیا تھا کہ اس سے مخصوص نشستوں کا مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ فیصلہ کر لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کس نے اور کیوں کیا اس کی تفصیلات بھی جلد ہو آ جائیں گی، کچھ لوگوں کو دھمکیاں موصول ہوئیں، انہیں لگا کہ اس سے کوئی مذہبی مسئلہ ہے تو اس وجہ سے شاید انہوں نے یہ فیصلہ تبدیل کر لیا اور اس فیصلے سے بہت بڑا نقصان ہوا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ فیصلہ لینے سے قبل عمران خان کو آگاہ کیا گیا تھا یا بعد میں آگاہ کیا گیا تو بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس حوالے سے شاید رابطے کا فقدان تھا لیکن جن لوگوں نے فیصلہ کیا وہ بہتر بتا سکیں گے البتہ بعد میں عمران خان کو بتا دیا گیا تھا اور الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ میں بھی وہی اعتراضات اٹھائے گئے کہ آپ کی جماعت نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا، لسٹ نہیں دی اور اس کا کوئی رکن بھی نہیں ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم یہ توقع نہیں کررہے تھے کہ یہ نشستیں ان جماعتوں کو دے دی جائیں جن کا کوٹہ ہی نہیں بنتا اور اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کا حکم غیرآئینی ہے اور سپریم کورٹ اب حتمی فیصلہ کرے گا لیکن اس چیز کا ہمیں اندازہ تھا کہ ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن یا ہائی کورٹ اس طرح سے فیصلہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس معاملے کو بالآخر سپریم کورٹ میں تو لے کر جانا ہی ہے تاکہ اس معاملے کی تشریح ہو جائے اور حتمی بات واضح ہو جائے کہ سنی اتحاد کونسل کو نشستیں مل سکتی ہیں یا نہیں اور اگر سنی اتحاد کو نہیں مل سکتیں تو کیا باقی جماعتوں میں بانٹی جا سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر نائب صدر اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل خان مروت نے کہا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سے دو بڑی غلطیاں ہوئیں جن کی آج ہم بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ پہلی غلطی اس وقت ہوئی جب بانی پی ٹی آئی نے جمعیت علمائے اسلام (شیرانی) گروپ سے الائنس کا کہا، معاملات طے پا گئے تھے لیکن 3، 4 دن بعد اچانک مولانا محمد خان شیرانی صاحب کی پارٹی کا پتا کٹ گیا اور بلے باز (پی ٹی آئی نظریاتی) سامنے آگئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ غلط فیصلہ نہ کیا جاتا تو ہم نشان سے محروم نہ رہتے، بے شک بلا نہ ہوتا لیکن ہم شیرانی صاحب کی پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑتے۔
شیر افضل مروت نے کہا تھا کہ دوسری بڑی غلطی وحدت مسلمین کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کرکے ہوئی، وحدت مسلمین کے ساتھ سمجھوتے کا مقصد مخصوص سیٹیں بچانا تھیں، لیکن کچھ لوگوں نے اس معاملے کو فرقہ واریت کا رنگ دیا اور پی ٹی آئی قیادت کو دھمکی آمیز پیغامات دیے گئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس صورتحال کے بعد پی ٹی آئی نے اچانک سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا فیصلہ کیا، یہ دو غلط فیصلے ہیں جن کی وجہ سے پارٹی 80 سے زیادہ سیٹیں کھو چکی ہے، ان فیصلے کے ذمے دار مجرموں کا تعین ہونا چاہیے۔