ایک بزرگ خاتون کو دو افراد بازوؤں سے پکڑ کر لے کر جا رہے ہیں۔ اس خاتون نے بلوچی لباس پہنا ہوا ہے اور وہ اپنا سر پیٹ رہی ہیں۔ ساتھ میں وہ بلوچی زبان میں کہہ رہی ہیں کہ ’میرے بیٹے کو کُتے کھا گئے۔‘
صوبہ سندھ کے ضلع کشمور کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک پرائمری سکول ٹیچر اللہ رکھیو نندوانی کی والدہ کرمپور ہسپتال سے باہر نکل رہی تھیں جہاں ان کے بیٹے کی لاش موجود تھی جنھیں مبینہ طور پر ڈاکوؤں نے قتل کیا تھا۔
گذشتہ ایک ہفتے میں اس واقعے سے جڑی یہ دوسری ویڈیو تھی جو وائرل ہوئی۔ اس سے قبل ایک ویڈیو میں ٹیچر اللہ رکھیو کو ڈاکوؤں سے بچنے کے لیے بندوق پہن کر سکول جاتے دیکھا گیا تھا۔
صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے تسلیم کیا ہے کہ شمالی سندھ میں ڈاکوؤں کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے اور شاید ڈاکو صرف اس وجہ سے اللہ رکھیو سے چِر گئے کہ انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے بندوق تھامی ہوتی تھی۔
’بندوق نہیں دوں گا‘
پولیس کے مطابق شمالی سندھ کے ضلعے کشمور کندھ کوٹ کے علاقے تنگوانی کے قریب ڈاکوؤں نے پیر کی دوپہر کو پرائمری ٹیچر اللہ رکھیو نندوانی کو قتل کر دیا تھا۔
اللہ رکھیو کی عمر 40 سال کے قریب تھی اور ان کے لواحقین میں بیواہیں اور پانچ بچے شامل ہیں۔
ان کے بڑے بھائی مٹھل نندوانی سے جب ٹیلیفون پر بات ہوئی تو وہ گھنڈو نندوانی گاؤں میں تعزیت وصول کر رہے تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک ہفتہ قبل ڈاکوؤں نے دو بار اللہ رکھیو کا تعاقب کیا تھا لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
ان کے بقول انھوں نے متعلقہ تھانے پر جا کر شکایت کی اور تحفظ کے لیے کہا تو ’پولیس صوبیدار کا کہنا تھا کہ ان کے پاس نفری نہیں ہے۔‘
انھوں نے درخواست کی تھی کہ انھیں اپنے تحفظ کے لیے لائسنس والی بندوق لے کر چلنے کی اجازت دی جائے اور اس کے بعد سے وہ بندوق لے کر پھرتے تھے۔
مٹھل نندوانی نے بتایا کہ ’گذشتہ روز وہ سکول سے واپس آ رہے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے ان کا پیچھا کیا۔ ایک نے سامنے سے، ایک نے پیچھے سے آکر ان کو گھیر لیا۔ ان سے موبائل فون اور موٹر سائیکل چھین لی۔
’جب بندوق چھیننے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ بندوق نہیں دوں گا۔ اس کے بعد انھوں نے فرار ہونے کی کوشش کی جس کے بعد ان کو پیچھے سے گولی مار دی گئی اور وہ نیچے گر گئے جبکہ ڈاکو فرار ہوگئے۔‘
سکول کا ہر استاد لُٹ چکا
اللہ رکھیو نندوانی گذشتہ چند سالوں سے نصراللہ بجارانی پرائمری سکول میں ٹیچر تھے جہاں پہلے وہ ریاضی اور حالیہ دنوں اسلامیات پڑھاتے تھے۔
یہ سکول کرمپور قصبے سے کوئی 15 کلومیٹر دور واقعہ ہے۔ اسی سکول میں ڈیوٹی کرنے والے غلام مرتضیٰ نندوانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے سکول کے ٹیچرز کے ساتھ پہلے بھی ڈکیتیاں ہوچکی ہیں جس میں موٹرسائیکل اور موبائل چھینے گئے۔ ان واردارتوں کے بعد ایک ہیڈ ماسٹر ملازمت چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
قتل سے پانچ روز قبل اللہ رکھیو کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ موٹر سائیکل پر سوار تھے اور کندھے پر بندوق اٹھا رکھی تھی۔
اس ویڈیو میں وہ کہہ رہے تھے کہ بچوں کے مستقبل کے لیے اسلحہ اٹھایا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ انھیں پولیس اور محکمہ تعلیم والے کہہ رہے تھے کہ آپ کچھ روز نہ جائیں۔ لیکن وہ کہتے تھے کہ ’ہمارے نہ جانے کی وجہ سے بچوں کا مستقبل خراب ہوسکتا ہے، اس لیے اسلحہ ساتھ رکھا ہے۔‘
حکومت سندھ نے شمالی سندھ میں 35 سے زائد سکول غیر سرکاری اداروں کو دیے ہیں۔ متعلقہ سکول سندھ رول سپورٹ آرگنائزیشن (ایس آر ایس او) چلاتی تھی جس میں اللہ رکھیو کو بطور ٹیچر 11 ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی۔
یاد رہے کہ حکومت سندھ نے کم از کم تنخواہ 35 ہزار روپے مقرر کی ہے۔ تنظیم کی جانب سے ویسے ملازمین کی لائف انشورنس کی جاتی ہے لیکن اللہ رکھیو سمیت کئی اساتذہ اس سے محروم تھے، باوجود اس کے وہ پُرخطر علاقوں میں کام کر رہے تھے۔
صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایس آر ایس او ایک نجی ادارے ہے اور وہ اس بات کی انکوائری کریں گے کہ حکومت سندھ کی جانب سے مقرر کردہ تنخواہ سے بھی کم تنخواہ کیوں دی جاتی ہے۔
ڈاکوؤں کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر
کشمور سمیت شمالی سندھ کے اضلاع میں گذشتہ کئی سالوں سے ڈاکوؤں کے متعدد گروہ سرگرم ہیں جو اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔
صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ نے تسلیم کیا کہ شمالی سندھ میں جہاں جہاں ڈاکو ہیں یا امن و امان کا مسئلہ ہے وہاں وہاں تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ ’اللہ رکھیو بھی اپنے تحفظ کے لیے بندوق لے کر پھرتے تھے۔ اس سے ڈاکو چِڑ گئے یا کیا ہوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی کوئی قبائلی دشمنی نہیں تھی۔‘
’جہاں ڈاکو ہیں وہاں اساتذہ ڈیوٹی نہیں کر پاتے۔ دوسرا (یہ کہ) بچے بھی وہاں نہیں آتے۔ ان سکولوں میں سے جو خستہ حالت میں ہیں ان کی مرمت کے لیے ٹھیکیدار جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر عمارت تیار ہوجائے تو سولر پلیٹس، کھڑکیاں، دروازے فرنیچر چوری ہوجاتا ہے۔‘
سردار شاہ کے مطابق کچے کے علاقوں میں قبائلی تنازعات بھی تعلیم متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ ’ایک قبیلے کا ٹیچر دوسرے قبیلے کے علاقے میں نہیں جاتا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اس تشویش کا اظہار وزیر داخلہ سے بھی کیا ہے۔
شمالی سندھ میں ایک اور آپریشن
حکومت سندھ نے شمالی سندھ میں ایک اور آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے صوبائی وزیر داخلہ ضیا لنجار 23 مارچ کو کشمور اور 24 مارچ کو سکھر میں امن و امان کے بارے میں اجلاس کی صدارت کریں گے۔
کشمور سے رکن قومی اسمبلی میر شبیر بجارانی نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبائی وزیر داخلہ اور آئی جی سندھ نے ان کے ساتھ ملاقات کی جس میں یہ فیصلہ ہوا ہے کہ کشمور، جیکب آباد، گھوٹکی اور شکارپور میں ایک مشترکہ آپریشن کیا جائے گا۔
’ڈاکوؤں تک رسائی کا مسئلہ نہیں۔ جذبے اور اسلحے کا فقدان ہے۔ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ بشمول اینٹی ایئر کرافٹ گنز ہیں لیکن پولیس کے پاس روایتی اسلحہ ہے۔ گذشتہ صوبائی حکومت میں کابینہ نے جدید اسلحے اور بکتر بند گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دی تھی لیکن عمل نہیں ہوا۔ اب عملدرآمد کیا جائے گا جس کے بعد پولیس جدید اسلحے سے لیس ہوجائے گی۔‘
شبیر بجارانی کے مطابق استاد اللہ رکھیو نندوانی کو بے گناہ قتل کیا گیا ہے اور ڈاکوؤں سے اس کا بدلہ لیا جائے گا۔
اس سے دو روز قبل کشمور کندھ کوٹ ضلع کونسل کے وائس چیئرمین میر الطاف احمد کھوسو نے وزیر داخلہ کو ایک خط بھیجا تھا جس میں ضلع میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
الطاف کھسو کے مطابق ہر گاؤں، ہر قصبے اور شہر سے دن کی روشنی میں موبائل فون اور بائیکس کی ڈکیتیاں ہو رہی ہیں جبکہ لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں۔
’تاجر، ہندو کمیونٹی مستقل خوف کے گھیرے میں ہیں۔ کئی لوگ یہاں سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ سڑکیں غیر محفوظ ہیں۔ اغوا کی وارداتیں عام ہیں لہذا امن و امان کے قیام کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔‘
کشمور میں انسانی حقوق کے کارکن امداد کھوسو نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے لوگ سورج غروب ہونے کے بعد سفر کرنے سے گھبراتے تھے لیکن اب تو دن میں بھی باہر نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ ’کیا کچا، کیا پکا۔ ہر جگہ بدامنی ہے۔ پولیس کے اقدامات عارضی ہوتے ہیں۔ یہاں مستقل اقدامات کی ضرورت ہے۔‘
دوسری جانب گھوٹکی، سکھر اور شکارپور کے ایس ایس پیز کا بھی تبادلہ کر دیا گیا ہے۔
کشمور پولیس کا دعویٰ ہے کہ کچے میں آپریشن جاری ہے اور 15 کے قریب مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اللہ رکھیو نندوانی کے بھائی مٹھل نے بتایا کہ ان سے ڈی آئی جی نے ملاقات کی تھی جس میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ چار روز میں ملزمان گرفتار ہوں گے لیکن وہ تو گھر خالی کر گئے ہیں تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ آپریشن جاری ہے۔