محکمہ صحت کے رجسٹر پر محض ایک نمبر کے طور پر پہنچنے سے پہلے گیارہ سالہ محمد زبیر (نام تبدیل کیا گیا ہے) ایک جیتے جاگتے انسان تھے۔ گذشتہ ماہ وہ لاہور کے جنرل ہسپتال میں سخت بیمار ہو کر پہنچے۔ ڈاکٹروں نے ان کے والدین کو بتایا کہ وہ نمونیا کا شکار ہیں۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ لاہور کے علاقے چنگی امر سدھو کے رہائشی محمد زبیر کے زندہ بچنے کے امکانات کم ہیں اور یہی ہوا۔ کچھ وقت انتہائی نگہداشت میں گزارنے کے بعد وہ چل بسے۔
اس طرح محکمہ صحت پنجاب کے رجسٹر پر حالیہ سرما میں نمونیا سے مرنے والوں میں ایک نمبر کا اضافہ ہو گیا۔ اس سرما میں اب تک نمونیا ساڑھے چار سو سے زیادہ جانیں لے چکا ہے جن میں زیادہ تر دو سے بارہ سال کی عمر کے بچے شامل ہیں۔
لاہور کے جنرل ہسپتال میں ڈاکٹروں کو محمد زبیر کے حوالے سے یہ خوف کیوں تھا کہ وہ بچ نہیں پائیں گے؟ ڈاکٹر ماہم نور اسی ہسپتال میں بچوں کے شعبے میں کام کرتی ہیں۔ گذشتہ چند ماہ میں ان کی ڈیوٹی ایمرجنسی اور آئی سی یو میں رہی ہے۔
یہاں انھوں نے نمونیا کا شکار بہت سے بچے آتے ہوئے دیکھے ہیں۔ زیادہ تر ٹھیک ہو کر گھر واپس چلے گئے لیکن محمد زبیر کی طرح بہت سے بچے زندہ گھر نہیں جا سکے۔
ڈاکٹر ماہم نور کہتی ہیں کہ ڈاکٹروں کو اس لیے ایسے بچوں کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ نمونیا ان کی جان لے لے گا کیونکہ ’ان میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ان میں کوئی پہلے سے موجود بیماری ہوتی ہے جس سے ان کا جسم لڑ رہا ہوتا ہے۔‘
محمد زبیر بھی سیریبرل پالسی کا شکار تھے۔ یہ ایک دماغی بیماری ہے جس میں دماغ جسم کے پٹھوں کو کنٹرول نہیں کر پاتا۔ گیارہ سال کی عمر میں ان کا وزن صرف پندرہ کلو تھا۔ ڈاکٹروں کو یہ علم نہیں کہ محمد زبیر کو نمونیا سے بچاؤ کا حفاظتی ٹیکہ لگا تھا یا نہیں۔
ڈاکٹر ماہم نور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے مشاہدے میں بہت سے ایسے بچے جن کی نمونیا سے اموات ہوئیں انھیں حفاظتی ٹیکہ نہیں لگا تھا۔
’اور ساتھ ہی ان میں غذائیت کی کمی تھی اور وہ بہت ہی کمزور تھے یا پھر ان کی افزائش ان کی عمر کے مطابق نہیں تھی۔ اس تمام کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں قوت مدافعت کی کمی پیدا ہو چکی تھی۔‘
پنجاب اکیلا نہیں، صوبہ خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان میں بھی سینکٹروں کی تعداد میں بچے نمونیا کے ہاتھوں جان گنوا بیٹھے ہیں۔
عالمی ماہرین صحت کہتے ہیں کہ پاکستان میں بچوں کی جان کی دشمن چند بڑی بیماریوں میں شامل نمونیا ان بیماریوں میں سے ایک ہے جن سے حفاظتی ٹیکہ بچوں کو بچا سکتا ہے۔ حفاظتی ٹیکے جسم میں ان بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔