شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ کالعدم: اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج کون ہیں؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلام ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف دائر اپیلیں منظور کرتے ہوئے انھیں نوکری سے برخاست کیے جانے کا فیصلہ غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔

شوکت عزیز صدیقی کو اکتوبر 2018 میں ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا جس کے خلاف انھوں نے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر درخواستیں دی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے ان درخواستوں پر 23 جنوری 2024 کو سماعت مکمل کی تھی جس کا فیصلہ جمعے کو جاری کیا گیا۔

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیلیں منظور کی جاتی ہیں اور سپریم جوڈیشل کونسل کی اس معاملے میں سفارشات اور وزیراعظم کی جانب سے اس سلسلے میں صدر مملکت کو بھیجی گئی ایڈوائس پر عملدرآمد کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچنے کی وجہ سے انھیں عہدے پر بحال نہیں کیا جا سکتا اس لیے انھیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے اور اس سلسلے میں انھیں تمام متعلقہ مراعات دی جائیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’کیس تاخیر سے مقرر ہونے کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کی عمر 62 سال پوری ہو چکی ہے اور عمر پوری ہونے کی وجہ سے شوکت عزیز صدیقی کو عہدے پر بحال نہیں کیا جا سکتا۔’

اس سے قبل 2021 میں پاکستان بار کونسل نے شوکت عزیز صدیقی کا وکالت کا لائسنس بھی بحال کیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پاکستان بار کونسل کی تین رکنی انرولمنٹ کمیٹی نے اس وقت اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل نے بدعنوانی یا اخلاقی گراوٹ جیسے الزامات کی بنیاد پر شوکت صدیقی کو برطرف نہیں کیا تو اس وجہ سے یہ کمیٹی فوری طور پر ان کے لائسنس کو بحال کرتی ہے۔

شوکت عزیز کون ہیں اور انھیں ان کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیا تھا؟

شوکت صدیقی 21 نومبر سنہ 2011 کو صوبہ پنجاب کے کوٹے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ایڈیشنل جج تعینات ہوئے اور پھر اُنھیں مستقل جج مقرر کر دیا گیا تھا۔

انھوں نے جولائی سنہ 2018 میں راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران نے الزام عائد کیا تھا کہ ‘آئی ایس آئی کے اہلکار نہ صرف عدالتی معاملات پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ اپنی پسند کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔‘

شوکت عزیز صدیقی

اس تقریر میں جسٹس شوکت صدیقی نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی سے ملاقات کر کے اُنھیں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد کرنے کا کہا گیا تھا جسے جسٹس شوکت صدیقی کے بقول تسلیم کرلیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ان الزامات پر فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو تحقیقات کرنے اور قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا کہا تھا۔

مذکورہ جج کے ان بیانات کی روشنی میں وزارت دفاع کی طرف سے ایک شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے اس شکایت پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے صدر مملکت سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ جج کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

اس سفارش پر عمل کرتے ہوئے اس وقت کے صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے اکتوبر سنہ 2018 میں شوکت صدیقی کو برطرف کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس سنہ 2015 میں بھی دائر کیا گیا تھا اور ان پر اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سرکاری گھر پر تزئین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے کا الزام تھا۔

جسٹس شوکت صدیقی عملی سیاست میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور انھوں نے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر راولپنڈی سے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا تاہم ناکام رہے تھے۔

Share.

Leave A Reply