کسی کو پتہ ہی نہیں سائفر کا متن کیا ہے لیکن دشمن کو فائدہ ہوگیا، اسلام آباد ہائیکورٹ

Pinterest LinkedIn Tumblr +

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں کہا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں سائفر کا متن کیا ہے لیکن کہہ رہے ہیں دشمن کو فائدہ ہوگیا، سارا کیس ایک ڈاکیومنٹ کے گرد گھوم رہا ہے وہ ڈاکیومنٹ بھی ریکارڈ پر نہیں اور اس کا متن بھی ریکارڈ پر نہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیل پر سماعت کی۔

بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر روسٹرم پر آگئے جبکہ ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے آفس سے کوئی آیا ہے؟ ہم نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے رپورٹ منگوائی تھی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی جانب سے رپورٹ ابھی تک پیش نہیں ہو سکی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ نے جج پر جو اعتراض کیا تھا وہ درخواست دکھائیں، سائفر کیس میں جب جج پر یہ اعتراض آیا تھا تو عدالت نے آبزرویشن دی تھی کہ ٹرائل جج کے سامنے درخواست دائر کر سکتے ہیں۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل جاری رکھے اور کہا کہ سائفر آفس 24 گھنٹے کام کرتا ہے، سائفر بذریعہ ای میل موصول ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جو سائفر آتا ہے وہ بذریعہ ای میل کوڈڈ شکل میں آتا ہے آفیسر اس کو ڈاؤن لوڈ کر کے ڈی کوڈ کرے گا؟

سلمان صفدر نے کہا کہ اوریجنل سائفر اسی کے پاس رک جائے گا، سیکرٹ لینگوئج بھی اس کے اوپر لکھی ہوئی ہے، سیکرٹری فارن افیئرز اجازت دیتا ہے کہ سائفر کس کس کے پاس جانا ہے، سائفر کی کاپی جس کے پاس بھی جائے وہ اوریجنل سائفر تصور ہوگا جو واپس کرنا ضروری ہے، یہ سائفر واپس کر کے ضائع کر دیا جاتا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ جو ای میل کوڈڈ فارم میں بذریعہ ای میل آیا کیا وہ اب موجود ہے؟ اس پر اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ جی وہ تو رہے گا۔

یہ کیسا کیس ہے جس کا کوئی ڈاکیومنٹ اور متن تک ریکارڈ پر نہیں، چیف جسٹس ہائی کورٹ

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ کرمنل کیس ہے جس کا ڈاکیومنٹ ریکارڈ پر ہی نہیں ہے، ڈاکیومنٹ جس کے غلط استعمال یا ٹوئسٹ کرنے کا الزام ہے اس کا متن ریکارڈ پر ہی نہیں ہے، یہ سول کیس نہیں بلکہ کرمنل کیس ہے اور مفروضوں پر نہیں جا سکتے اور بغیر کسی شک و شبے کے پراسیکیوشن کو یہ ثابت کرنا ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے سامنے یہ کیس سنا گیا تو بنچ نے بار بار کہا اس کو سائفر نہ کہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا کوڈ تک بانی پی ٹی آئی کی کسی اسٹیج پر رسائی تھی ؟

سلمان صفدر نے کہا کہ کوئی رسائی نہیں تھی نہ ہی یہ ایف آئی اے کا کیس ہے، سائفر سیکیورٹی کا سیکریٹ کوڈ تک تو رسائی ہی نہیں تو کیسے سسٹم کمپرومائز ہوگیا؟ کل میں عدالت کے سامنے درخواستیں ہائی لائٹ کروں گا وہ کیا ہیں، ہم نے ٹرائل کورٹ کو سائفر گائیڈ لائن کی درخواست دی تھی جو مسترد کردی گئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سارا کیس ایک ڈاکیومنٹ کے اردگرد گھوم رہا ہے، وہ ڈاکیومنٹ ریکارڈ پر نہیں اور کم از کم متن بھی ریکارڈ پر نہیں۔

سلمان صفدر نے کہا کہ آئیڈیلی پراسیکوشن کا کیس یہ تھا کہ دفتر خارجہ سے کوئی سائفر چوری کرکے دشمن ملک کو دے دے، کیا گواہ کہہ رہا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل کی ہدایت پر سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو دی گئی؟ تفتیشی افسر نے کسی اسٹیج پر یہ نہیں کہا کہ اسے سائفر کی کاپی دی گئی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر کے وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ سیکریٹ سیکشن پولیٹیکل (ایس ایس پی ) وزارت خارجہ میں ایک سیکشن ہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ دفتر خارجہ کے گواہ شمعون نے کہا کہ اوریجنل سائفر دفتر خارجہ میں پڑا ہے، اس ایف آئی آر میں سائفر لفظ غلط استعمال ہوا ہے، سائفر دفتر خارجہ میں ہی رک جاتا ہے آگے کاپی پلین ٹیکسٹ جاتی ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ سپر کاپی کوئی آفیشل ٹرمینالوجی تو نہیں ہے؟ اس پر اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جو نمبر لگا ہے وہ سائفر نہیں پلین ٹیکسٹ ہے یہ ظاہر ہو رہا ہے، ایک صفحہ پہلے وہ کہہ رہے ہیں امریکا سے نمبر لگا اب اگلے صفحے پر کہہ رہے ہیں سائفر کو نمبر یہاں لگا ہے، درست پوزیشن یہ ہے کہ گواہ یہ کہہ رہے ہیں یہ سائفر کی کاپی پر پاکستان میں نمبر لگاہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بھی کچھ جگہوں پر میں نے پڑھا ہے وہاں بھی کاپی لکھا ہوا ہے۔

عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ یہ کہا لکھا ہے کہ سائفر کی کاپیز کو ضائع کیا جائے گا ؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ آپ بھی سائفر دیکھ سکتے ہیں ۔

عدالت نے کہا کہ ہم اپیل سن رہے ہیں ہم ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی قانونی پوزیشن دیکھنی ہے نہ جج کو اور نہ پراسیکوشن کو وہ ڈاکیومنٹ دکھایا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کسی کو پتا نہیں کہ سائفر کا متن کیا ہے لیکن کہہ رہے ہیں کہ دشمن کو فائدہ ہوگیا، سائفر کا متن جج، پراسیکیوشن یا ملزمان کے وکلاء کے سامنے ہی نہیں ہے، سائفر کام کیسے کرتا ہے دفتر خارجہ کو کیا بلا کر پوچھ لیں ؟ اس حوالے سے کل عدالتی معاونت کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے اسٹیٹ کونسلز کی سی ویز طلب کی تھیں، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے ریکارڈ طلب کیا تھا وہ بھی پیش نہیں کیا گیا۔

ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت نے کہا کہ ہمیں کورٹ کا آرڈر ہی نہیں مل سکا تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی موجودگی میں آرڈر لکھوایا تھا، آپ ہمارے آرڈر کو بہت غیرسنجیدہ لے رہے ہیں؟

بعدازاں سائفر کیس کی سزا کے خلاف کیس کی سماعت کل ملتوی کردی گئی۔

Share.

Leave A Reply