غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد میں امریکہ کی عدم شرکت اس کے اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

کئی ہفتوں سے امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی حکومت کے سینئیر عہدیداروں کے صبر کا پیمانہ غزہ میں اسرائیل کی لڑائی کے انداز کی وجہ سے لبریز ہو رہا تھا۔

انھوں نے اسرائیل اور دیگر دُنیا تک اپنی ناراضی پہنچانے کے لیے سخت زبان استعمال کی۔

سکیورٹی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے حالیہ قرارداد کا پیش ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صدر بائیڈن نے فیصلہ کر لیا ہے کہ صرف سخت الفاظ کے استعمال سے معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔

امریکہ کی جانب سے غزہ میں جاری جنگ سے متعلق ایک سفارتی تحفظ ختم کر دیا گیا ہے جو ایک اہم قدم ہے۔

یہ عمل اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو اور وائٹ ہاؤس کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

وزیراعظم نتن یاہو نے امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس قدم نے جنگ اور سات اکتوبر کو حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔

صدر بائیڈن اور امریکی حکام نے شاید اسرائیلی وزیرِاعظم کے بیان کو احسان فراموشی کے طور پردیکھا ہو گا۔

صدر بائیڈن کو اسرائیل سے بہت لگاؤ ہے اور وہ خود کو صیہونی کہتے ہیں اور انھوں نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیلی عوام کو نہ صرف جذباتی مدد دی بلکہ حکومت کو عسکری اور سفارتی طور پر بھی معاونت فراہم کی۔

اسرائیلی وزیراعظم اپنے ملک کے یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی تباہی چاہتے ہیں لیکن امریکی صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ اسرائیل یہ کام دُرست طریقے سے کرے۔

جنگ کے ابتدائی تباہ کن ہفتوں میں صدر بائیڈن نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ اسرائیل غصے میں اندھا نہ ہو اور 7 اکتوبر کے حملے پر ویسا ردِ عمل نہ دے جیسا ردِ عمل امریکہ نے 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد دیا تھا۔

غزہ میں خوراک کی قلت

امریکی صدر نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ انھوں نے حماس کے حملوں سے متاثرہ ہونے والے خاندانوں کو دلاسہ دیا اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ وہ اپنے اس دورے کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو سے بھی ملے جن کے ساتھ ان کے کبھی بھی اچھے تعلقات نہیں رہے تھے۔

صدر بائیڈن اور ان کے وزیرخارجہ اینتھونی بلنکن سات اکتوبر سے اب تک چھ مرتبہ اسرائیل جا چکے ہیں اور کئی بار اسرائیل کو بتا چکے ہیں کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔

جنگ کے آغاز میں جب پہلی امریکہ تنبیہ کی تیاری کی جا رہی تھیں وزیراعظم نتن یاہو نے اسرائیلی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سخت انتقام لیں گے۔

غزہ کی تباہی، فلسطینی شہریوں پر منڈلاتے قحط اور جنوبی غزہ میں رفح کے علاقے میں بہت سی اور اموات کے خدشات کی وجہ سے لگتا ہے کہ صدر بائیڈن کے لیے اپنی تجاویز کو مسترد ہونے کے لیے یہ کافی تھا۔

اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ جنگی قوانین کا احترام کرتا ہے اور وہ انکار کرتا ہے کہ اس نے انسانی بنیادوں پر غزہ کے لوگوں کے لیے پہنچائی جانے والی امداد کو بند کیا۔

لیکن شواہد اکھٹے ہو چکے ہیں کہ اسرائیل سچ نہیں بتا رہا، وہاں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور ان سے کچھ ہی میلوں کی دوری پر اسرائیل اور مصر میں خوراک کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

امریکہ اور باقی دنیا اقوام متحدہ اور امدادی ایجنسیوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے ان شواہد کو دیکھ سکتی ہے جن میں کہا جا رہا ہے کہ غزہ قحط کے دہانے پر ہے۔

امریکی فوج فضا سے طیاروں کے ذریعے غزہ میں امداد گرا رہی ہے اور بحر اوقیانوس کے اس پار ایک عارضی ’ڈاک‘ قائم کی تاکہ بحری راستے سے غزہ تک رسد ممکن بنائی جا سکے جبکہ اسرائیل ’اشدود‘ کی بندرگاہ کے ذریعے صرف تھوڑی مقدار میں ہی رسد کی اجازت دیتا ہے۔

اشدود ایک جدید کنٹینر ٹرمینل ہے جو غزہ کے شمال میں صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔

سلامتی کونسل

جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کے امریکی فیصلے کی وجہ بھی یہی کہ ان الزامات کو رد کیا جا سکے جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل سب کچھ امریکی ایما پر کر رہا ہے۔

یہ پیشرفت اس وقت پر ہوئی ہے جب وزیر اعظم نتن یاہو نے بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دیرینہ مشرق وسطیٰ کے بدترین بحران سے نکلنے کے منصوبے کو مسترد کیا۔

امریکی انتظامیہ یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ بین الاقوامی دباؤ سے اسرائیل کے استثنیٰ کی بھی کوئی حد ہے۔

سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عام طور پر بین الاقوامی قانون کی طاقت سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ اس قرارداد کا احترام کرے گا، جس کا حماس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں فلسطینی نمائندے نے بھی خیر مقدم کیا۔

نتن یاہو کی مخلوط حکومت یہودی انتہا پسندوں کی حمایت پر انحصار کرتی ہے۔ وہ سب اتحادی اس پر زور دیں گے کہ وہ اس قرارداد کو نظر انداز کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر امریکہ کو بھی جواب دینا پڑے گا۔

اگر الفاظ کا اثر نہیں ہوتا تو پھر صدر بائیڈن عملاً اسرائیل کو فضا کے ذریعے ملنے والی ہتھیاروں کی سپلائی بند کر سکتے ہیں۔

اس وقت اسلحے سے بھرے درجنوں جہاز اسرائیل کا رخ کر رہے ہیں اور یہی اسلحہ اسرائیل موجودہ جنگ میں بھی استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل کو ابھی رفح تک اپنی زمینی جنگ کو وسعت دینے کے منصوبے کے لیے بھی اسلحے کی شدت سے ضرورت ہو گی۔

امریکہ اسرائیل اتحاد بہت گہرا ہے۔ سنہ 1948 میں صدر ہیری ٹرومین نے اسرائیل کی آزادی کے اعلان کے 11 منٹ بعد اسے تسلیم کیا تھا لیکن بعض اوقات یہ تعلق سرد مہری کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہ بحران اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسرائیل امریکی صدور کی خواہشات کے برعکس آگے بڑھتا ہے اور امریکی مفادات کا خیال نہیں رکھتا۔

یہ پہلا موقع نہیں جب نتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں بیٹھی امریکی انتظامیہ کو مشتعل کیا ہو۔

سنہ 1996 میں پہلی بار اسرائیل کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے وہ باقاعدگی سے ایسا کر رہے ہیں۔

لیکن امریکہ کے بارے میں ان کی مخالفت کبھی اتنی طویل یا تلخ نہیں رہی اور امریکہ اسرائیل کے طویل اتحاد میں کوئی بحران اتنا سنگین نہیں رہا جتنا کہ غزہ جنگ کے تقریباً چھ ماہ میں پیدا ہوا۔

Share.

Leave A Reply