پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام ایک خط میں لکھا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی میں فیورٹ ازم (پسندیدگی) اور صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
جسٹس ابراہیم کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ میں اس وقت بلوچستان سے تین اور کے پی سے صرف دو ججز ہیں۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس ابراہیم خان 13 اپریل کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ تعیناتی کے لیے میرے ایسے مراسم نہیں جو ایسے موقع پر کام آتے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’توقع ہے اس خط کے بعد آپ میرے خلاف نہیں ہوجائیں گے کیونکہ آپ خود بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں۔‘
جسٹس ابراہیم خان نے لکھا کہ میں ’بھاری دل کے ساتھ یہ خط فیورٹ ازم سے متعلق لکھ رہا ہوں کہ جب سپریم کورٹ میں چار آسامیاں خالی تھیں تو آپ نے صرف ایک تعیناتی اپنے صوبے بلوچستان سے جسٹس نعیم افغان کی صورت میں کی۔
جسٹس ابراہیم نے کہا کہ میں کوئی فیصلوں کو چیلنج نہیں کر رہا ہوں بلکہ اس خط کے ذریعے اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ پوچھنا چاہتا ہوں کیا وجہ تھی کہ چار آسامیوں کے خالی ہوتے صرف ایک پر تعیناتی کی گئی؟ انھوں نے لکھا کہ تمام ہائیکورٹس میں دوسرا سینیئر موسٹ چیف جسٹس ہوں۔
انھوں نے لکھا ک میں خود جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن ہوں، توقع تھی کم از کم میرا نام زیر غور تو لایا جائے گا‘۔
جسٹس ابراہیم خان کے مطابق لوگ جلد انصاف کی رسائی کی توقع رکھتے ہیں اور آسامیاں خالی ہیں۔ ٹیکس ادا کرنے والے شہری آسامیوں کو جلد بھرنے کی توقع رکھتے ہیں، سوچتا رہا کہ باقی آسامیاں خالی چھوڑنے کی وجہ کیا ہے؟
جسٹس ابراہیم خان نے اس کے بعد لکھا کہ ’مجھے کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آئی ہے۔‘ ان کے مطابق وہ 31 سال سے مذہنی فریضے کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ’ایسا کیریئر رہا کہ خدا کے سامنے مطمئن ہوں ضمیر کیمطابق فیصلے کیے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’قانون کی حکمرانی کے لیے میرا ایمان غیرمتزلزل ہے۔‘
جسٹس ابراہیم نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ہی لکھے گئے خط کا حوالہ دیا جو انھوں نے جولائی 2022 کو اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو میرٹ پر تعیناتیوں سے متعلق لکھا تھا۔