گرہن کے وہ چار منٹ جو ہمیں سورج اور کائنات کے مختلف رازوں سے پردہ اٹھانے میں مدد دیں گے

Pinterest LinkedIn Tumblr +

دنیا بھر کے لوگ آٹھ اپریل کو ہونے والے سورج گرہن کے حوالے سے پرجوش ہیں کیونکہ شمالی امریکہ کے کچھ حصوں میں مکمل سورج گرہن نظر آئے گا اور وہاں چار منٹ اور نو سیکنڈ تک مکمل اندھیرا چھائے گا۔

یہ وقت گذشتہ سورج گرہن کے مقابلے میں کافی طویل ہے اس لیے ناسا کے سائنسدانوں نے اس دوران کئی تجربات کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

کچھ لوگوں کے لیے وہ قیمتی منٹ سائنس کے اکثر ناممکن تجربات کا موقع ہوں گے۔

محققین چاند گرہن کے راستے میں راکٹ اڑائیں گے، چڑیا گھروں میں کھڑے ہو کر جانوروں کو بغور جائزہ لیں گے، پوری دنیا میں ریڈیو سگنل بھیجیں گے اور بڑے پیمانے پر کیمروں کے ساتھ خلا میں جھانکیں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کو اس مرحلے کا حصہ بننے کے لیے سائنسدان بننے کی ضرورت نہیں ہے۔

sun

نارتھ کیرولائنا سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈم ہارٹ سٹون گرہن کا دن فورٹ ورتھ، ٹیکساس کے چڑیا گھر میں گزاریں گے۔

وہ گوریلوں اور زرافوں سے لے کر گالاپاگوس کے کچھوؤں تک کے جانوروں میں عجیب و غریب رویوں کی تلاش میں رہیں گے۔

بہت سارے جانور اچانک اندھیرے پر بے چین ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فلیمنگو نے پچھلی بار ایک خوبصورت کام کیا تھا۔‘

’جب گرہن شروع ہو رہا تھا تو بڑے جانوروں نے چوزوں کو ریوڑ کے بیچ میں اکٹھا کیا اور آسمان کی طرف اس طرح دیکھا جیسے وہ کسی ہوائی شکاری کے نیچے آنے سے پریشان ہوں۔‘

گوریلے وہاں چلے گئے جہاں وہ سوتے تھے اور سونے کے وقت کے معمولات شروع کیے۔

کوئی بھی اس تجربے میں شامل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ چاند گرہن کے دوران پالتو جانور، کھیت والے جانور یا جنگلی جانور غیر معمولی برتاؤ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ مارک کی ٹیم کو آن لائن بتا سکتے ہیں۔

ٹیم کے تقریباً فوری نتائج ہوں گے اور چاند گرہن کے بعد کے دنوں میں وہ اپنے نتائج شائع کریں گے۔

animals

گرجتے ہوئے پلازما کی ایک جھلک
جب شمالی امریکہ کے کچھ حصوں پر اندھیرا چھا جائے گا تو سورج کا ایک حصہ باہر جھانک کر دیکھے گا جسے لوگ صدیوں سے سمجھنےکے لیے کوشاں ہیں۔ اس کا ماحول یا کورونا۔

سورج کا یہ پراسرار حصہ مقناطیسی پلازما سے بنا ہے اور اس کی پیمائش ایک ملین ڈگری سیلسیس سے زیادہ ہے۔

عام طور پر سورج کی ناقابل یقین چمک کورونا کو دیکھنا ناممکن بنا دیتی ہے لیکن پیر کو ڈیلاس، ٹیکساس میں سائنسدان اس کی طرف آلات کی نشاندہی کر کے تصاویر کھینچ سکیں گے۔

ویلز میں ایبرسٹ وِتھ یونیورسٹی اور ناسا کے سائنسدانوں کو شمسی ہوا کے بارے میں بصیرت ملنے کی امید ہے، جو سورج کی سطح سے پھینکا جانے والا پلازما ہے۔ ایک اور معمہ یہ ہے کہ کورونا اپنے کنارے پر ہونے کے باوجود سورج کی سطح سے زیادہ گرم کیوں دکھائی دیتا ہے۔

وہ یہاں تک بھی دیکھ سکتے ہیں جسے کورونل ماس ایجیکشن کہا جاتا ہے، جب بڑے بڑے پلازما بادل فضا سے خلا میں پھینکے جاتے ہیں۔ اخراج ان سیٹلائٹس کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے جو ہم زمین پر استعمال کرتے ہیں۔

ابرے سٹیوتھ یونیورسٹی میں فزکس کے پروفیسر ہو مورگن کا کہنا ہے کہ اس چار منٹ کے عرصے میں بہت سارے پیسے، وقت اور لاجسٹکس صرف ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب یہ صحیح ہو جاتا ہے تو یہ خوشی کا حقیقی احساس ہوتا ہے کیونکہ آپ نے اتنی دیر سے تیاری کی تھی۔ تاہم اگر کوئی بادل ہے تو یہ ایک تباہی ہے اور ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔‘

solar eclipse

یہ سورج گرہن ہمارے تقریباً تمام مواصلات میں خلل ڈال سکتا ہے، بشمول ہلکی لمبی لہر والے ریڈیو میں۔

سورج سے حاصل ہونے والی توانائی بالائی فضا کے ایک خطے کو چارج کرتی ہے جسے آئن سپیئر کہتے ہیں، جو کرۂ ارض کے گرد ریڈیو کی ترسیل میں مدد کرتا ہے لیکن جب چاند سورج کو روکتا ہے تو آئن سپیئر متاثر ہوتا ہے۔

یہ جانچنے کے لیے کہ یہ ریڈیو کے ساتھ کیا کرتا ہے، سینکڑوں شوقیہ ریڈیو آپریٹرز اس کے لیے مخصوص ایک ریڈیو لِسنگ پارٹی میں شامل ہوں گے اور دنیا بھر میں ایک دوسرے کو سگنل بھیجیں گے۔ وہ سب سے زیادہ رابطوں کے لیے مقابلہ کریں گے۔

وہ مورس کوڈ میں بات چیت کر سکتے ہیں یا بول بھی سکتے ہیں۔

پارٹی کو چلانے والے پینسلوینیا میں یونیورسٹی آف سکرینٹن کے نتھانیئل فریسیل کے مطابق نتائج سائنسدانوں کو ہنگامی کارکنوں، ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے ساتھ ساتھ جی پی ایس کے ذریعے استعمال ہونے والے ریڈیو مواصلات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

الیکٹرک انجینئرنگ کے طالب علم تھامس پیسانو ڈاکٹر فریسل کے ساتھ مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ریڈیو آلات کے ساتھ میزوں پر بیٹھ کر، وہ سگنل بھیجیں گے اور دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ آپریٹرز سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم سب واقعی یہ ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ گرہن برطانیہ میں بمشکل ہی نظر آئے گا، ملک بھر کے ریڈیو آپریٹرز اب بھی بحر اوقیانوس کے دوسری طرف سے بھیجے گئے پیغامات کو دیکھیں گے۔

ریڈیو آپریٹر گرفتھس سمندر کے پار لمبی لہروں کے سگنل بھیجنے اور وصول کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ کتنی دور تک سفر کرتے ہیں۔

سورج گرہن کا پیچھا کرتے ہوئے اڑتے ہوئے جیٹ طیارے
امریکی خلائی ایجنسی ناسا زمین سے پچاس ہزار فٹ کی بلندی سےتصاویر لینے کے لیے سورج گرہن کے راستے میں 57 ڈبلیو بی جیٹ طیارے اڑائے گی۔

اب طیاروں کا اتنی بلندی پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس منظر کو دیکھنے سے وہ محروم نہیں رہیں گے۔ حیٹ طیاروں کے کمیروں کو واضح تصاویر لینی چاہیے۔

کورونا کے حوالے سے نئی تفصیلات کا پتہ لگانے کے علاوہ شاید ناسا سورج کے گرد دھول کے حلقے کا مطالعہ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر آس پاس کے چکر لگانے والے کی کر سکتا ہے۔

طیاروں پر موجود ایک آلہ جسے سپیکٹرومیٹر کہتے ہیں وہ سورج سے نکلنے والے شمسی مواد کے پھٹنے کے بارے میں مزید جاننے میں مدد کرے گا۔

ہواائی جہاز بھی گرہن سے وقت لیں گے اور وہ 460 میل فی گھنٹہ کی رتفتار سے سفر کریں گے اور چاند کے سائے چھ منٹ اور بائیس سیکنڈ سے زیادہ وقت گزاریں گے۔ یہ ہم سے دو منٹ اور 22 سیکنڈ زیادہ ہو گاجو کہ زمین پر چار ساڑھے چار منٹ گزاریں گے اگر ہم خوش قسمت ہیں۔

Share.

Leave A Reply