بین الاقوامی منی لانڈرنگ اور کالے دھن کا سنسنی خیز مقدمہ جس نے ’امیروں کی جنت‘ سنگاپور میں ہلچل مچا رکھی ہے

Pinterest LinkedIn Tumblr +

سنگاپور کی ایک عدالت نے ایک ایسے سنسنی خیز مقدمے میں سزائیں سنانے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے جس میں 10 چینی شہریوں پر بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں کے ذریعے حاصل شدہ 2.2 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کا الزام لگا تھا۔

اس سکینڈل کی زد میں متعدد بینک، پراپرٹی ایجنٹ، بیش قیمت دھاتوں کے تاجر اور ایک گالف کلب آئے تھے جس کے بعد متمول علاقوں میں چھاپے مارے گئے اور پولیس نے اربوں مالیت کے اثاثے اور کیش رقم ضبط کیے۔

اس مقدمے کی تفصیلات نے سنگاپور میں ہلچل مچا رکھی ہے کیونکہ تقریباً 152 پراپرٹیز، 62 گاڑیاں، لگژری بیگ اور گھڑیوں سمیت سینکڑوں زیورات اور ہزاروں شراب کی بوتلیں بھی ضبط ہونے والے سامان کا حصہ ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں سو ونکیانگ اور سو ہائیجن کو قید کی سزا سنائی گئی۔ پولیس کے مطابق سو ہائیجن نے گرفتاری سے بچنے کے لیے ایک مکان کی دوسری منزل سے چھلانگ لگا دی تھی۔ دونوں افراد کو تقریباً ایک سال کا عرصہ جیل میں گزارنا ہو گا جس کے بعد انھیں ملک بدر کر دیا جائے گا اور سنگاپور داخلے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ آٹھ دیگر ملزمان سزا سنائے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔

تاہم سنگاپور میں اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے بڑے مقدمے نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ استغاثہ نے دعوی کیا ہے کہ ان ملزمان کی عیش و عشرت کی زندگی کو ممکن بنانے والا پیسہ درحقیقت ملک کے باہر غیر قانونی سرگرمیوں سے حاصل ہوا جن میں فراڈ اور آن لائن جوا شامل تھے۔

لیکن یہ ملزمان، جن میں سے چند کے پاس کمبوڈیا، وناٹو، قبرص اور ڈومینیکا جیسے ممالک کے پاسپورٹ بھی ہیں، کس طرح برسوں سنگاپور میں کسی کی نظر میں آئے بغیر زندگی گزارتے رہے؟

اس سوال نے بینکاری کے قوائد و ضوابط سے جڑی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے خصوصاً ایسے افراد کے بارے میں جن کے پاس متعدد ممالک کی شہریت ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس مقدمے نے سنگاپور میں بے انتہا مالدار افراد کو خوش آمدید کہنے کی روایت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

سنگاپور

پیسہ ہی پیسہ
’ایشیا کا سوئٹزرلینڈ‘ کہلائے جانے والے سنگاپور نے 1990 کی دہائی میں بینکوں اور لوگوں کی دولت سنبھالنے والے مینجرز کو ملک میں لانے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ ادھر چین اور انڈیا میں معاشی اصلاحات کے نتائج نظر آنا شروع ہوئے اور انڈونیشیا بھی ترقی کرنے لگا تو سنگاپور اپنے سرمایہ دار دوست قوانین، ٹیکس چھوٹ اور دیگر سہولیات کی بنا پر بین الاقوامی کاروبار کی جنت بن گیا۔

آج امرا سنگاپور کے نجی جیٹ ٹرمینل پر اتر سکتے ہیں اور متمول علاقوں میں رہائش پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے پہلی ہیروں کی ٹریڈنگ ایکسچینج میں سٹے بازی کر سکتے ہیں۔

اس نجی ایئرپورٹ کے قریب ہی ’لی فری پورٹ‘ نامی انتہائی محفوظ سمجھا جانے والا سکیورٹی والٹ ہے جہاں بیش قیمت آرٹ کے نمونوں، زیورات، شراب اور دیگر بیش قیمت اشیا کو محفوظ رکھنے کی خدمات بنا کسی ٹیکس کے فراہم کی جاتی ہے۔ اس 100 ملین ڈالر مالیت کی جگہ کو ’ایشیا کا فورٹ ناکس‘ بھی کہا جاتا ہے۔

سنگاپور کے اثاثی جات مینجرز 2022 میں بیرون ملک سے 435 ارب ڈالر لے کر آئے جو 2017 کے مقابلے میں دو گنا رقم تھی۔ ایشیا میں امرا کی نجی دولت کا نظم و نسق سنبھالنے والی کمپنیوں کے آدھے دفاتر سنگاپور میں واقع ہیں۔

ان میں گوگل کے شریک بانی سرگئی برن، برطانوی ارب پتی جیمز ڈائیسن اور چینی سنگاپوری شو پنگ شامل ہیں جو دنیا میں ہاٹ سپاٹ ریسٹورنٹس کی سب سے بڑی چین ’ہائیڈیالو‘ کے مالک ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ مقدمے میں الزامات کا سامنا کرنے والے چند ملزمان کا تعلق ان کمپنیوں سے ہو سکتا ہے۔

چونگ جا این کارنیگی چین میں سکالر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’سنگاپور جیسی جگہ، جہاں شفاف حکومت پر فخر کیا جاتا ہے، میں یہ تضاد پایا جاتا ہے کہ وہ دولت اکھٹا کرنے کا بھی خواہشمند ہے اور اس کے لیے رازداری اور ٹیکس چھوٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے اور اسی لیے یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ سنگاپور ایسے افراد کے لیے بھی بینکاری کی سہولت دے رہا ہو جنھوں نے غلط طریقوں سے پیسہ بنایا۔‘

سنگاپور

امیر چینی شہریوں کے لیے سنگاپور ایک پرکشش منزل ہے کیونکہ یہاں حکومت کا معیار بہتر اور سیاسی استحکام موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سنگاپور کی چین سے ثقافتی مماثلت اور روابط بھی ہیں اور اسی لیے حالیہ برسوں میں زیادہ سے زیادہ چینی پیسہ سنگاپور پہنچ رہا ہے۔

اس مقدمے میں نامزد 10 ملزمان میں سے ایک 2017 سے چین میں غیر قانونی جوئے بازی کے الزام میں مطلوب تھا۔ استغاثہ نے عندیہ دیا ہے کہ ملزم چینی حکام سے بچنے کے لیے سنگاپور آیا تھا۔

نظر کے سامنے
یہ پہلا موقع نہیں کہ سنگاپور کے بینکوں سے جڑا مالیاتی سکینڈل منظر عام پر آیا ہو۔ اس سے قبل ون ایم ڈی بی سکینڈل میں بھی منی لانڈرنگ کے الزامات لگے تھے جب ملائیشیا کے سرکاری سرمایہ کاری فنڈ سے اربوں کی خوردبورد کا انکشاف ہوا تھا۔ ڈان ٹان، جنھیں انٹرپول نے ’دنیا کے سب سے بدنام زمانہ میچ فکسنگ سنڈیکیٹ کا سرغنہ‘ قرار دیا تھا، کا بھی سنگاپور سے تعلق رہا۔ ان کو سنہ 2013 میں سنگاپور میں ہی گرفتار کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ ملک میں جرائم پیشہ کارروائیوں کے حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں اور سنگاپور فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس کا رکن بھی ہے جو منی لانڈرنگ اور شدت پسند گروہوں کے مالیاتی امور کی روک تھام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ہے۔

حالیہ برسوں میں بینکوں نے بھی اپنے قوانین پر عملدرآمد کے لیے کافی کام کیا تاکہ مشتبہ لین دین کی نشاندہی کی جا سکے لیکن یہ تمام انتظامات فول پروف نہیں۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ ریگولیٹرز کے لیے کسی ایک مشتبہ کیس کی نشان دہی کرنا مشکل ہوتا ہے۔

سنگاپور کی وزیر داخلہ جوزفین ٹیو نے گزشتہ برس سنگاپور کی پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ’یہ ایسا نہیں کہ بھوسے کے ڈھیر میں سے ایک سوئی تلاش کرنا ہو بلکہ متعدد بھوسے کے ڈھیروں سے ایک سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔‘

ماہرین کے مطابق سنگاپور کی پراپرٹی مارکیٹ بھی کالے دھن کو سفید کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کیسینو، نائٹ کلب اور لگژری ستور اس کے علاوہ ہیں۔

سنگاپور کی ننیانگ ٹیکنولوجیکل یونیورسٹی میں اکاوئنٹنگ پروفیسر کیلون لا کا کہنا ہے کہ ’سنگاپور کے بینکاری نظام سے روزانہ کی بنیاد پر بے تحاشہ پیسہ گزرتا ہے اور جرائم پیسہ عناصر اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر اپنی منی لانڈرنگ کو قانونی طریقے سے چھپا سکتے ہیں۔‘

سنگاپور

سنگاپور میں ایسی کوئی قانونی قدغن بھی موجود نہیں کہ ملک میں آنے اور باہر جانے والے کتنا پیسہ رکھ سکتے ہیں بلکہ ان کو صرف اس صورت میں ایک بیان دینا پڑتا ہے اگر ان کے پاس 20 ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم ہو۔

کرسٹوفر لیہی ’بلیک پیک‘ نامی فرم کے بانی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک سہولت ہے۔ اگر آپ کو بہت سارا پیسہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا ہے تو آپ اسے نظر کے سامنے چھپا سکتے ہیں اور اس کام کے لیے سنگاپور بہترین جگہ ہے۔ کیمن جزائر یا برٹش ورجن جزائر جانے کی ضرورت نہیں، جہاں پیسہ خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔‘

جب حکام سے ان نکات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بی بی سی کی توجہ موجودہ قوانین اور گزشتہ سال وزیر داخلہ کے ایک انٹرویو کی جانب مبذول کروائی۔

اس انٹرویو میں کے شانمگام نے کہا تھا کہ ’ہم اس راستے کو بند نہیں کر سکتے کیونکہ پھر قانونی طور پر بھی پیسہ نہیں آ سکے گا۔ کاروبار کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا یا بہت مشکل ہو جائے گا، تو میں سمجھداری سے کام لینا ہے۔‘

انھوں نے چینی رہنما ڈینگ زیاوپنگ کا قول دہرایا کہ ’اگر آپ کامیاب ہیں اور اہم مالیاتی مرکز ہیں تو بہت پیسہ آئے گا اور کچھ مکھیاں بھی آئیں گی۔‘

کارنیگی چین کے ڈاکٹر چونگ کا کہنا ہے کہ سنگاپور کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ مشتبہ ذرائع سے حاصل کردہ دولت کو حاصل کرنے میں کتنا آگے تک جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں شفافیت سے رازداری کی سہولت متاثر ہو گی جو امرا کی دولت اکھٹی کرنے کی بنیاد ہے۔‘

چند ماہرین کا ماننا ہے کہ سنگاپور اپنی موجودہ پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے یہ قیمت ادا کر سکتا ہے۔

کرسٹوفر لیہی کا کہنا ہے کہ ’فنڈز کی اکثریت تو قانونی ہے لیکن ایک بڑے مالیاتی مرکز ہونے کی ایک قیمت تو ہوتی ہے۔‘

Share.

Leave A Reply