انڈیا میں انتخابات سے قبل ’ہندوتوا فلموں‘ کی دھوم: کیا فلمیں ووٹرز کو متاثر کرتی ہیں؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

انڈیا میں پچھلے کچھ سالوں میں ہندوتوا پارٹیوں کے نظریے پر مرکوز فلموں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ فلمیں ملک میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں؟

سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل دو فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن پر کافی بحث ہوئی تھی۔ پارلیمانی انتخابات سے تین ماہ قبل وجے گٹے کی ہدایت کاری میں بنی فلم ‘دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر سنجے بارو کی تصنیف کردہ کتاب پر مبنی ہے۔ اس فلم میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کی تصویر کشی کی گئی تھی کہ وہ کس طرح کانگریس قیادت کے قبضے میں ہیں۔

جوں جوں پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالنے کے دن قریب آنے لگے فلم ‘تاشقند فائلز – ہو کلڈ شاستری؟’ ریلیز ہوئی۔ وویک اگنی ہوتری کی ہدایت میں بننے والی اس فلم نے انڈیا کے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ لیکن فلم کو بہت خراب ریویوز ملے۔

اس وقت یہ الزام لگایا گیا کہ یہ دونوں فلمیں مرکز میں حکمراں بی جے پی کی مخالف پارٹی کانگریس کو نشانہ بنانے کے لیے بنائی گئی تھیں۔

دی کشمیر فائلز

دی کشمیر فائلز نے بھی خاطر خواہ بزنس کیا
پچھلے سال میں تین فلمیں آئیں
اب جب کہ پارلیمانی انتخابات قریب آرہے ہیں اسی طرح کی فلمیں گذشتہ سال سے ریلیز ہو رہی ہیں۔ گذشتہ سال ایسی ہی تین فلمیں ریلیز ہوئیں۔

’دی کیرالہ سٹوری‘ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو نرس بننا چاہتی ہے، اسلام قبول کر کے آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوتی ہے اور افغان جیل میں قید ہے۔ کیرالہ میں اس فلم کی شدید مخالفت ہوئی تھی۔ فلم کے عملے کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے عدالت میں جاری درخواست میں دیے گئے اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ یہ فلم گذشتہ سال مئی میں ریلیز ہوئی تھی اور اس کی ہدایت کاری سودیپتو سین نے کی تھی۔ فلم کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہت زیادہ پروموٹ کیا تھا۔

دوسری فلم ‘دی کشمیر فائلز’ تھی جس میں سنہ 1990 کی دہائی میں کشمیر سے ہندو پنڈتوں کے اخراج کو دکھایا گیا ہے۔ وویک اگنی ہوتری نے اس فلم کی ہدایت کاری کی۔ بی جے پی نے اس فلم کی بھی کافی حمایت کی۔ پارٹی نے دعویٰ کیا کہ فلم نے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کو بے نقاب کیا ہے۔ بی جے پی نے اس فلم کو حکمران ریاستوں میں ٹیکس فری قرار دیا تھا۔ یہ فلم 11 مارچ سنہ 2022 کو ریلیز ہوئی اور زبردست کامیابی حاصل کی۔

تیسری فلم ’دی ویکسین وار‘ تھی۔ اسے بھی وویک اگنی ہوتری نے ہدایت دی تھی۔ یہ انڈیا میں کووڈ وبا کے لیے ویکسین تلاش کرنے کی کہانی ہے۔ اگرچہ ایک فلم کے طور پر یہ دیکھنے کے قابل ہے ناقدین نے فلم پر حکومتی پروپیگنڈہ فلم ہونے کا سخت الزام لگایا ہے۔ اسے گزشتہ سال 23 ستمبر کو ریلیز کیا گیا تھا۔

ان تینوں فلموں میں ‘دی کیرالہ سٹوری’ اور ‘دی کشمیر فائلز’ نے بہت کامیابی حاصل کی۔ فلم ‘دی کیرالہ سٹوری’ کو ریاست کیرالہ کو انتہائی منفی انداز میں پیش کرنے پر شدید مخالفت کا سامنا رہا۔ فلم کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے۔

دی ویکسین وار کو پروپگینڈا فلم قرار دیا گیا ہے

دی ویکسین وار کو پروپگینڈا فلم قرار دیا گیا ہے
ہندوتوا والی فلموں کی لمبی فہرست
اس کے بعد رواں سال جنوری سے پھر سے ہندو نقطہ نظر والی کئی فلمیں ریلیز ہونے لگی ہیں۔ ان میں سوتنتر ویر ساورکر فلم اہم ہے جس میں ہندتوا کے نظریات کے حامی ساورکر کی زندگی کی کہانی پیش کی گئی ہے۔

اداکار رندیپ ہوڈا نے اس میں ساورکر کا کردار ادا کیا ہے اور فلم کی ہدایت کاری بھی خود ہی کی۔ یہ فلم 22 مارچ کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم پر یہ تنقید ہوئی کہ اس میں تاریخی معلومات کو ہندو نقطہ نظر سے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ‘جے این یو: جہانگیر نیشنل یونیورسٹی’ نام کی فلم دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو دوسرے روپ میں پیش کیا گيا ہے۔ ونے شرما کی ہدایت کاری والی اس فلم میں اروشی روتلا، سدھارتھ بھوٹکے، وجے راس اور دیگر نے اداکاری کی ہے۔

بائیں بازو کے نظریات کی نمائندگی کرنے والی یونیورسٹی میں دائیں بازو کے طالب علم نے فلم کے پوسٹر کے ریلیز ہوتے ہی ردعمل ظاہر کیا۔ فلم کو ابتدائی طور پر پانچ اپریل کو ریلیز کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اب اس کی ریلیز کو 22 اپریل تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 370 نامی فلم کو آدتیہ سوہاس جمبالے نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ اس میں یامی گوتم، پریمانی اور ارون گوول نے اداکاری کی۔

ساورکر

ہندوتوا کے علمبردار ساورکر کی زندگی پر مبنی فلم
یہ فلم کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بارے میں ہے۔ یہ کشمیر پر بی جے پی کے مؤقف کے گرد بنائی گئی ہے۔ یہ فلم 23 فروری کو ریلیز ہوئی تھی۔

’میں اٹل ہوں‘ روی جادو کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم انڈیا کے سابق وزیر اعظم اور بی جے پی رہنما اٹل بہاری واجپائی کی زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ پنکج ترپاٹھی نے واجپائی کا کردار ادا کیا ہے۔

یہ فلم 19 جنوری کو ریلیز ہوئی تھی۔ تقریباً 20 کروڑ روپے کی لاگت سے بنی اس فلم نے سینما گھروں میں صرف 8.5 کروڑ روپے کمائے۔

فلم ‘رضاکار’ کی ہدایت یتا ستیہ نارائن نے دی ہے۔ اس فلم میں بابی سمہا، تیج سبرو اور ویدیکا نے اداکاری کی ہے۔ یہ فلم ہندوستان کی آزادی کے وقت حیدرآباد نظام کی ریاست میں پیش آنے والے واقعات پر مبنی ہے۔

15 مارچ کو ریلیز ہونے والی تیلگو فلم کو ہندو نقطہ نظر سے واقعات پیش کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

‘ایکسیڈنٹ اور کنسپیریسی: گودھرا’ (حادثہ یا سازش: گودھرا) نامی فلم سنہ 2002 میں گجرات کے گودھرا میں ٹرین جلانے کے واقعے پر مبنی ہے اس فلم کے ہدایت کار ایم کے سیوکش ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فلم گودھرا کی تحقیقات کے لیے قائم ناناوتی کمیشن کی رپورٹ پر مبنی ہے۔

ناناوتی کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ گودھرا ٹرین جلانے کا واقعہ ٹرین پر مسلمانوں کے حملے کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ فلم گذشتہ مارچ میں ریلیز ہوئی تھی۔

جے این یو

جے این یو ایک زمانے سے دائیں بازو نظریات کا گڑھ رہی ہے
‘دی کیرالہ سٹوری’ کا ایک بار پھر تنازع
فلمیں آتی رہتی ہیں اور بھلا دی جاتی ہیں لیکن 5 اپریل کو انڈیا کے سرکاری ٹیلی ویژن دوردرشن پر متنازع فلم ‘دی کیرالہ سٹوری’ کو پیش کیا گيا۔

جب یہ اعلان کیا گیا تو کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے اس کی سخت مخالفت کی۔

پنارائی وجین نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر اپنے احتجاج میں کہا کہ ‘نیشنل ٹیلی ویژن کو یہ فلم دکھا کر بی جے پی کے پروپیگنڈہ کا ہتھکنڈہ نہیں بننا چاہیے جو انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئینی شق 370 پر مبنی فلم

کشمیر کی خصوصی حیثیت والی آئینی شق 370 پر مبنی فلم
کیا فلمیں انتخابات کو متاثر کرتی ہیں؟
فلمیں پوری دنیا میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ جنوبی ہند میں دراوڑ تحریک نے سینیما کو ایک کامیاب پروپیگنڈہ مشین اور اپنی ترقی کے لیے ایک گاڑی کے طور پر استعمال کیا ہے۔

لیکن یہ سوال بھی ہے کہ آنے والی فلمیں انتخابات میں کتنی کارآمد ثابت ہوں گی۔

تھیوڈور باسکرن ایک طویل عرصے سے تامل فلموں کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ‘دی آئی آف دی سرپینٹ’ کے نام سے تامل فلموں کی تاریخ کی کتاب کے مصنف ہیں۔ انھوں نے اس بارے میں بی بی سی تمل سے بات کی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کو جانچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آیا فلموں کا انتخابات پر فوری اثر پڑتا ہے۔ اس لیے انھیں اس بات میں شبہ ہے ‘آیا کوئی سیاسی جماعت فلمیں ریلیز کر کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔’

میں اٹل ہوں

فلم سابق انڈین پی ایم اور بی جے پی رہنما اٹل بہاری واجپئی کی زندگی پر مبنی ہے
‘تمل فلموں کا انتخابات پر کوئی اثر نہیں’
لیکن کشمیر فائلز اور کیرالہ اسٹوری کے علاوہ کوئی بھی ہندوتوا فلمیں ملک بھر کوئی زیادہ سنسنی پیدا نہیں کر سکیں۔

فلمی نقاد رامکی کہتے ہیں کہ اس کے باوجود ان فلموں کا انتخابات پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔

‘نہ صرف ہندی میں بلکہ تیلگو میں بھی ہندوؤں پر مبنی کئی فلمیں بنی ہیں۔ گذشتہ 1990 کی دہائی میں بنی تمل کی کئی فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر دکھایا گیا تھا، لیکن ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پاکستان کے خالف شدید جذبات کے لحاظ سے ‘دی کشمیر فائلز’ جیسی فلمیں شمالی ہند میں تو ہلچل کا باعث بن سکتی ہیں لیکن ان کا زیادہ اثر نہیں ہوگا۔’

فلمی تجزیہ کار اور ہدایت کار امشان کمار بھی اسی طرح کے خیالات ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘جب پارشکتی سامنے آئی تو پورا انڈیا دنگ رہ گیا۔ تمل ناڈو میں اس نے سیکولرازم اور توہم پرستی کے خاتمے کے تصورات پر زور دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس فلم نے انتخابات کو متاثر کیا۔’

رضاکار

حیدرآباد کے انڈیا میں انضمام کا انڈین ورژن ہے
‘سیاسی فلموں کو بہتر ہدایت کاروں کی ضرورت ہے’
تھیوڈور بھاسکرن کا کہنا ہے کہ تشدد اور پرتشدد خیالات کی عکاسی کسی کے خیال کو آگے نہیں لے جا سکتے۔

‘فلم کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کے لیے ایک بہت اچھا فلم ڈائریکٹر ہونا ضروری ہے، لیکن ایسے ہدایت کار بہت کم ہوتے ہیں۔ کسی خیال کو غصے اور جذباتی انداز میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی سوچ کو آگے بڑھانا ہے تو فلم کو اس سوچ کو فعال طور پر پیش کرنا چاہیے۔’

تھیوڈور بھاسکرن کہتے ہیں کہ وہ ‘اردھ ستیہ’ (1983 کی ہندی فلم) جیسی فلمیں ہیں۔ تمل میں ریلیز ہونے والی ‘سیاتھی ناتھیر’ اور ‘اورے اورو گراماتھیلے’ جیسی فلموں کو سیاسی فلمیں کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اب آنے والی فلموں کا تعلق ہے، یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کا کتنا اثر پڑے گا۔

تجربہ کار صحافی اور سیاسی مبصر ملان نے اس ضمن میں ایک نکتہ پیش کیا ہے۔

انھوں نے کہا: ‘1996 کے الیکشن میں تمل سٹیٹ کانگریس پارٹی کو سائیکل کا نشان دیا گیا تھا۔ تو سرکاری ٹیلی ویژن دوردرشن پر لائٹ اینڈ ساؤنڈ پروگرام میں بھی کسی کو سائیکل پر گانا گاتے اور سنتے نہیں دکھایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ سیاسی رہنماؤں کے مجسمے بھی ڈھانپ دیے جاتے تھے۔ لیکن اس وقت دوردرشن پر ‘دی کیرالہ سٹوری’ دکھائي جا رہی ہے یہ حیرت کی بات ہے۔’

فلم ‘دی کشمیر فائلز’ (دی کشمیر فائلز) ہندوتوا فلموں میں بہت کامیاب رہی۔ ‘دی کیرالہ سٹوری’ (دی کیرالہ اسٹوری) نے کافی دھوم مچا دی۔ لیکن جہاں تک دوسری فلموں کا تعلق ہے ان فلموں کے ریلیز ہوتے ہی ان پر شور شرابہ تو ہوا لیکن انھیں تجارتی طور پر کامیابی نہیں ملی۔

Share.

Leave A Reply