سڈنی حملے میں پاکستانی فراز طاہر کی ہلاکت: ’کہتا تھا بھائی میں اچھی جگہ پہنچ گیا ،اب مستقبل محفوظ دکھائی دیتا ہے‘

Pinterest LinkedIn Tumblr +

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں سنیچر کو ویسٹ فیلڈ بونڈائے جنکشن شاپنگ مال میں ایک چاقو بردار شخص کے قاتلانہ حملے میں ہلاک ہونے والے مرد کی شناخت ایک پاکستانی شہری کے طور پر ہوئی ہے۔

آسٹریلیا میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والے مرد کا تعلق پاکستان سے ہے جن کا نام فراز طاہر ہے۔

آسٹریلیا کی پاکستانی نیشنل ایسوسی ایشن نے بھی تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والے فراز طاہر جائے وقوعہ پر بطور سکیورٹی گارڈ خدمات انجام دے رہے تھے۔

یاد رہے کہ سنیچر کے روز سڈنی کے ایک شاپنگ مال میں ایک چاقو بردار شخص کے حملے میں پانچ خواتین اور ایک مرد کی موت ہو گئی تھی۔

آسٹریلیا کی پولیس کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق حملہ آور کو ایک پولیس افسر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

بی بی سی نے اس حملے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی شہری فراز طاہر کے پاکستان میں موجود ان کے بھائیوں اور آسٹریلیا میں ان کے دوست شجر احمد سے بات کر کے اس واقعے کی تفصیلات اور فراز کے حالات زندگی جاننے کی کوشش کی۔

فراز طاہر کے بھائی مدثر طاہر کے مطابق ان کے بھائی نے سوگواروں میں تین بھائی اور دو بہنیں چھوڑی ہیں جبکہ والدین کی وفات ہو چُکی ہے۔

آسٹریلیا میں موجود ان کے دوست شجر احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فراز طاہر کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چینوٹ کے قریبی شہر چناب نگر سے تھا۔

ان کے مطابق ’وہ تقریباً ایک سال پہلے آسٹریلیا پہنچے تھے اور تقریباً چھ ماہ سے سیکورٹی گارڈ کی ملازمت کر رہے تھے۔‘

واضح رہے کہ فراز طاہر جب آسٹریلیا گئے تھے تو وہاں ان کا رابطہ پاکستانی شہری شجر احمد سے ہوا جنھوں نے فراز طاہرکو ملازمت اور تعلیم میں معاونت فراہم کی تھی ۔

The victims of yesterday’s horrific attacks at Bondi Junction, Sydney included a Pakistani citizen who lost his life while saving the others. Our deepest sympathies and prayers are with his family. We are working with the family for reparation of his mortal remains to Pakistan.

— Zahid Hafeez Chaudhri (@Zhchaudhri) April 14, 2024

’حملہ آور انتہائی خوفناک انداز میں حملہ کر رہا تھا‘
شجر احمد کے مطابق ’جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت فراز طاہر اپنے ایک اور پاکستانی ساتھی طحٰہ عمر کے ساتھ سکیورٹی گارڈ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس واقعہ میں طحٰہ عمر زخمی ہوئے ہیں تاہم ان کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے تاہم وہ فی الحال ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔‘

شجر احمد کا کہنا تھا کہ اس حملے میں زخمی ہونے والے طحٰہ عمر نے انھیں بتایا کہ ’جب حملہ آور اس مقام پر پہنچا تو اس نے اچانک فراز طاہر کے سینے پر چاقو سے بہت گہرا وار کیا۔ یہ لمحوں میں ہوا ہمیں کچھ سمجھنے کا موقع نہیں ملا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔‘

’حملہ آور نے دوسرا وار طحٰہ عمر پر کیا جس سے وہ زخمی ہوئے۔ طحٰہ کے مطابق انھوں نے ممکنہ حد تک اس حملے سے بچنے کے لیے مزاحمت کی مگر حملہ آور انتہائی خوفناک انداز میں حملے کررہا تھا۔‘

شجر احمد نے طحہ عمر کے حوالے سے بتایا کہ’انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ فراز پر حملہ ہوا ہے تو اس دوران خود انھیں سنبھلنے کے لیے کچھ وقت مل گیا تھا جس وجہ سے زخم زیادہ گہرا نہیں لگا تھا۔‘

شجراحمد کہتے ہیں کہ طحہ کے مطابق فراز طاہر بہت زخمی تھا مگر اس نے اس حال میں بھی اپنے ریڈیو سے کنٹرول روم کو حملے کے متعلق مطلع کیا جس کے فورا بعد کنٹرول سے مدد اورساتھ ہی ایمبولینس پہنچ گئی تھی۔

شجر احمد کہتے ہیں کہ فراز طاہر کے ساتھی طحٰہ کو ابھی تک فراز کی موت کی خبر نہیں دی گئی کیونکہ اس وقت طحٰہ خود بھی ٹراما کی کیفیت میں ہیں۔

Faraz

حملے کے دن طاہر کو رات کی بجائے دن کی ڈیوٹی پر بلایا گیا
فراز طاہر کے بڑے بھائی مظفر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فراز کی عُمر 30 سال تھی اور وہ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے، اُن کے علاوہ اُن کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔‘

مظفر نے مزید بتایا کہ ان کے بھائی فراز نے پانچ سال پہلے پاکستان چھوڑ دیا تھا اور اس دوران وہ چار سال تک سری لنکا میں اقوام متحدہ نیشنل ہائی کمیشن فاررفیوجی پروگرام کے تحت لگائے گئے کیمپ میں رہے جہاں سے پھر آسٹریلیا جانے کا موقع ملا تھا۔

دوسری جانب شجر احمد کا کہنا تھا کہ فراز طاہر نے چار سال کا انتہائی مشکل وقت گزارا تھا۔ جس کے اثرات اب تک موجود تھے۔

مظفر طاہر نے بتایا کہ ’فراز آسٹریلیا پہنچے تو یہاں پر زندگی آسان نہ تھی۔ انھوں نے پہلے وہاں پر سکیورٹی لائسنسنگ کے کورسز کیے جس کے بعد انھیں سکیورٹی گارڈ کی ملازمت ملی تھی۔ وہ اپنی اس ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔‘

شجر احمد نے بتایا کہ ’فراز طاہر یہاں پر مختلف کورسز کررہے تھے۔ انھوں نے اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ سے شروع کر دیا تھا۔ ان کورسز کی وجہ سے وہ نائٹ شفٹ کیا کرتے تھے۔ فراز طاہر نے ہم سے درخواست کی ہوئی تھی کہ اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو انھیں نائٹ شفٹ پر رکھا جائے اور یہ درخواست قبول کرلی گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’واقعے والے روز کسی وجہ سے دن کے وقت ان کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ ان کو کال کی گئی اور کہا گیا کہ وہ مہربانی کرکے آج رات کی جگہ دن میں کام کرلیں۔ جس کے بعد وہ کام پر پہنچ گئے پھر یہ واقعہ پیش آیا گیا۔‘

30 سالہ فراز کی چند دن میں سالگرہ تھی

آسٹریلیا

سنیچر کو ویسٹ فیلڈ بونڈائے جنکشن شاپنگ مال میں ایک چاقو بردار شخص کے قاتلانہ حملے پانچ خواتین اور ایک مرد میں ہلاک ہوئے تھے۔ ویسٹ فیلڈ شاپنگ مال کا شمار آسٹریلیا کے مصروف ترین مقامات میں ہوتا ہے
شجر احمد نے فراز کے حوالے سے مزید بتایا کہ ’فراز طاہر کی 24 اپریل کو سالگرہ تھی۔ چار سال کی مشکلات کے بعد فراز طاہر کی شادی کی باتیں ہو رہی تھیں ابھی ان کا خاندان رشتہ وغیرہ دیکھ رہا تھا۔

شجر کے مطابق ’فراز طاہر کا خاندان پاکستان میں مختلف مشکلات کا شکار ہے۔ ان کا ایک بھائی کچھ عرصہ قبل اسی طریقے سے لندن گیا ہے جہاں پر وہ ابھی جدوجہد کررہے ہیں جبکہ فراز طاہر سکیورٹی گارڈ کی ملازمت ملنے کے بعد کسی حد تک خود کو سیٹ سمجھتے تھے۔‘

شجر احمد بتاتے ہیں کہ انھوں نے پاکستان میں موجود اپنے دو بھائیوں کو بتا دیا تھا کہ ملازمت ملنے کے بعد اب حالات بہتر ہیں اور اب وہ جلد ہی ان (بھائیوں) کو آسٹریلیا بلانے کا پراسیس شروع کردیں گے مگر انھیں اس کی مہلت ہی نہیں ملی۔

دوسری جانب پاکستان میں موجود فراز طاہر کے بھائی مدثر نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں انتہائی مشکل حالات کی وجہ سے فراز پہلے 2017 میں سری لنکا اور پھر2022 کے آواخر میں آسٹریلیا گئے جہاں پر شروع میں کبھی کام ملتا اور کبھی نہیں ملتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ہمارے خاندان کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے اور ایک انتہائی مُشکل وقت بھی۔‘

’خواہش ہے کہ چھوٹے بھائی کو آخری مرتبہ دیکھ سکوں‘
فراز کے بڑے بھائی مظفر نے بی بی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فراز کی یوں تو بہت سی باتیں تھیں کہ جو اب اُس کے جانے کے بعد ہمیں بہت یاد آرہی ہیں، چھوٹا تھا تو شرارتیں کرتا تھا۔ ڈانٹ بھی کھاتا تھا مگر اپنی شرارتوں میں لگا رہتا تھا، بڑا ہوا تو انتہائی خوش مزاج طبعیت کا مالک تھا، ہنستا مُسکراتا رہتا تھا۔‘

’وہ جب آسٹریلیا پہنچا تو فون پر جب بھی بات کرتا تھا بس یہی کہتا تھا کہ بھائی اب میں بہت اچھی جگہ پہنچ گیا ہوں، یہاں بہت سکون ہے اور اب مُجھے اپنا مستقبل محفوظ اور آزاد دکھائی دینے لگا ہے۔‘

فراز کے بڑے بھائی مظفر کا کہنا تھا کہ ابھی تک تو حکومت کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا مگر ’میں یہ چاہتا ہوں کے ایک بار اپنے چھوٹے بھائی کا چہرہ دیکھ لوں۔ اب اگر اُسے آخری مرتبہ بھی نہ دیکھ سکا تو زندگی بھر سکون نہیں آئے گا اور یہ افسوس زندگی بھر رہے گا کہ اپنے بچوں کی طرح کے چھوٹے بھائی جس کے لیے ساری زندگی محنت کی اُسے آخری مرتبہ دیکھ بھی نہیں سکا۔‘

Share.

Leave A Reply