جب انڈیا کی مدد سے بندوق کے سائے تلے ’بنگلہ دیش‘ کی پہلی عبوری حکومت قائم ہوئی

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پانچ دن گھوڑے پر اور پیدل چلنے کے بعد 31 مارچ 1971 کی شام عوامی لیگ کے رہنما تاج الدین احمد اور امیر الاسلام انڈیا کی سرحد کے قریب ایک پل کے پاس بیٹھے تھے۔ دونوں ننگے پاؤں تھے۔ ان کا ایک قاصد سرحد پار رابطہ قائم کرنے گیا تھا۔

جیسے ہی اندھیرا ہوا، ان کو جوتوں کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی ہی دیر میں مسلح سپاہیوں کا ایک چھوٹا گروپ ان کے سامنے تھا۔ ان کی قیادت بارڈر سیکورٹی فورس کے ایک اعلیٰ افسر گولوک مجمدار کر رہے تھے۔

تاج الدین نے عوامی لیگ کے رہنماؤں اور قومی اسمبلی کے اراکین کی ایک فہرست ان کے حوالے کی۔ 30 اور 31 مارچ کی رات 12 بجے بارڈر سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل کے ایف رستم جی تاج الدین احمد سے ملنے دہلی سے کلکتہ پہنچے۔ گولوک مجمدار نے ان کا استقبال کیا اور انھیں ایئرپورٹ کے باہر کھڑی ایک جیپ تک لائے جس میں تاج الدین احمد بیٹھے تھے۔

رستم جی اپنی کتاب ‘The British, Bandits and the Borderman’ میں لکھتے ہیں ’ہم تاج الدین احمد اور امیر الاسلام کو اپنے ساتھ آسام ہاؤس لے آئے۔ میں نے ان کو اپنا کرتا پاجامہ دیا۔‘’اگلے دو دن تک دونوں نے ہمیں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کی کہانی سنائی۔ یکم اپریل کو تاج الدین اور اسلام کو ایک پرانے فوجی طیارے میں دہلی لایا گیا۔‘

انڈین بارڈر سیکورٹی فورس کے سابق ڈائریکٹر جنرل کے ایف رستم جی

انڈین بارڈر سیکورٹی فورس کے سابق ڈائریکٹر جنرل کے ایف رستم جی
تاج الدین احمد کی اندرا گاندھی سے ملاقات
اپریل کی شام تاج الدین احمد کو انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ان کے دفتر میں ملوانے لے جایا گیا۔

منش گھوش، جنھوں نے حال ہی میں ایک کتاب ’بنگلہ دیش وار رپورٹ فرام گراؤنڈ زیرو‘ لکھی ہے، بتاتے ہیں کہ ’اندرا گاندھی نے تاج الدین احمد سے پوچھا کہ کیا وہ جلد از جلد جلاوطنی میں حکومت بنانے کا سوچ رہے ہیں؟‘ تاج الدین احمد نے کہا ’بنگلہ دیش کی حکومت پہلے سے موجود ہے۔‘

لیکن اندرا گاندھی نے دلیل دی کہ اس حکومت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اور بین الاقوامی قبولیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ حکومت بین الاقوامی میڈیا کی نظروں کے سامنے حلف اٹھائے اور وہ بھی مشرقی پاکستان کے ایک ایسے علاقے میں جس پر آزادی پسندوں کا کنٹرول ہو۔

تاج الدین نے کہا کہ ’میں بھی آپ کو یہی بتانے والا تھا لیکن یہ سوچ کر ہچکچا رہا تھا کہ ایسی حکومت بنانے کے لیے انڈیا کا مکمل تعاون درکار ہو گا۔‘

اندرا گاندھی نے وہاں موجود افسران بالخصوص رستم جی سے کہا کہ وہ تاج الدین احمد کو مکمل مدد فراہم کریں۔ دہلی میں ہی تاج الدین احمد نے ایک تقریر ریکارڈ کی۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم تاج الدین احمد اندرا گاندھی کے ساتھ

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم تاج الدین احمد اندرا گاندھی کے ساتھ
11 اپریل 1971 کو یہ تقریر بی ایس ایف کی طرف سے آزاد بنگالی وائرلیس سینٹر سے نشر ہوئی جس میں تاج الدین نے بتایا کہ ایک طاقتور فوج بنائی جائے گی جس میں ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے سپاہی شامل ہوں گے۔

9 اپریل کو تاج الدین کلکتہ واپس آئے۔ انھیں اور ان کے بعد آنے والے عوامی لیگ کے تمام رہنماؤں کو ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ جلد ہی ہوٹل میں ٹھہرنے والے مہمانوں کی تعداد 50 ہو گئی۔

ملک کے نام اور قومی ترانے پر اتفاق رائے
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے لیے صدارتی نظام کا انتخاب کیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوا کہ آزادی کے بعد مشرقی پاکستان کا نام کیا رکھا جائے؟ کے ایف رستم جی لکھتے ہیں کسی نے مشرقی بنگال کا نام تجویز کیا۔ لیکن کسی نام پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔

آخر میں تاج الدین احمد نے ’بنگلہ دیش‘ نام تجویز کیا، سب نے فوراً اس نام پر اتفاق کیا۔

اسی میٹنگ میں ملک کے قومی ترانے کا بھی انتخاب کیا گیا، اس کے لیے دو گانوں پر غور کیا گیا، پہلا گانا دوجیندر ناتھ رائے کا تھا اور دوسرا ’امر شونر بنگلہ‘ تھا۔ آخر میں ٹیگور کے گیت پر اتفاق ہوا کیونکہ یہ شیخ مجیب کا بھی پسندیدہ گانا تھا۔

تاج الدین احمد شیخ مجیب کے ساتھ

تاج الدین احمد شیخ مجیب کے ساتھ
اندرا گاندھی سے ملاقات کے بعد، تاج الدین بی ایس ایف کی طرف سے فراہم کردہ ڈکوٹا فلائٹ میں میگھالیہ روانہ ہوئے۔ وہاں انھوں نے عوامی لیگ کے رہنما سید نذر الاسلام سے ملاقات کی تاکہ ان کو جلاوطن حکومت کا قائم مقام صدر بننے پر آمادہ کیا جا سکے۔ اس کے بعد وہ عوامی لیگ کے دیگر سینئر رہنماؤں کو ڈھونڈنے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی مہاجر کیمپوں کا دورہ کرنے لگے۔

اب سوال یہ تھا کہ حلف برداری کی تقریب کب اور کہاں ہونی چاہیے؟ اس کے لیے پہلے چواڈانگا کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن چند روز قبل پاکستانی طیاروں نے اس قصبے میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے اڈے کو تباہ کر دیا تھا۔

بارڈر سکیورٹی فورس کے اعلیٰ افسران رستم جی اور گولوک نے مشرقی پاکستان کے نقشے کا مطالعہ کرنے کے بعد وہ جگہ ڈھونڈ لی جو ابھی تک آزادی پسندوں کے زیر کنٹرول تھی۔

آپریشنل اور سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ضروری تھا کہ یہ جگہ انڈین سرحد کے قریب اور سڑک کے ذریعے منسلک ہو تاکہ بین الاقوامی میڈیا اور حلف اٹھانے والے وزراء وہاں تک آسانی سے پہنچ سکیں۔

آخر میں اس جگہ کا انتخاب کیا گیا جو مغربی بنگال کے ایک ضلع سے تین اطراف سے گھرا ہوا تھا۔ یہ جگہ مہر پور شہر کے قریب بیدیا ناتھل میں آم کے گھنے باغات کے درمیان تھی۔

منش گھوش بتاتے ہیں کہ بارڈر سکیورٹی فورس کے افسر نے 16 اپریل کی شام کو کلکتہ میں موجود تمام غیر ملکی صحافیوں سے رابطہ کیا اور انہیں 17 اپریل کی صبح 4 بجے کلکتہ پریس کلب میں جمع ہونے کو کہا۔

حلف برداری کی تقریب
غیر ملکی صحافیوں کو بتایا گیا کہ انھیں ایک خاص خبر کے لیے کسی نامعلوم مقام پر لے جایا جائے گا۔

تقریباً 200 صحافیوں کو حلف برداری کی تقریب میں لے جانے کے لیے 60 کاروں کی ضرورت تھی۔

رستم جی اس مقصد کے لیے اتنی بڑی تعداد میں سرکاری کاریں استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس سے مشن کے خفیہ رہنے کا امکان کم ہو جاتا۔

گولوک مجمدار نے اپنے ایک دوست نہار چکرورتی کی مدد لی اور ایک دن کے لیے ڈرائیوروں سمیت 60 کاروں کا بندوبست کیا گیا۔

یہ کاریں صبح 4 بجے اپنی منزل کے لیے روانہ ہوئیں۔ رستم جی اور مجمدار کی گاڑیوں کے بالکل پیچھے عوامی لیگ کے ان رہنماؤں کی کاریں تھیں جو حلف اٹھانے والے تھے۔

جب موٹروں کا قافلہ 11 بجے آم کے باغ کے قریب پہنچا تو بی ایس ایف کے جوانوں نے درخت کی شاخوں پر پوزیشنیں سنبھال لی تھیں۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے قائم مقام صدر نذر الاسلام اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عثمانی

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے قائم مقام صدر نذر الاسلام اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عثمانی
منش گھوش کہتے ہیں ’اینٹی ائیر کرافٹ گنیں نصب تھیں اور انڈین فضائیہ کے طیارے آسمان میں چکر لگا رہے تھے۔ خدشہ تھا کہ پاکستانی طیارے اس جگہ پر حملہ کر سکتے ہیں۔ یہ جگہ انڈین سرحد سے چند سو گز کے فاصلے پر تھی۔ جب غیر ملکی صحافی وہاں اترے تو ان کو سمجھ نہیں آئی کہ انھیں اتنی دور کیوں لایا گیا؟‘

باغ کے ایک کونے میں پرانی خاکی وردیوں میں ملبوس مشرقی پاکستان رائفلز کا ایک دستہ گارڈ آف آنر دینے کی مشق کر رہا تھا۔ دوسرے کونے پر کچھ لوگ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ گانے کی مشق کر رہے تھے۔ ان کے پاس موسیقی کا کوئی آلہ نہیں تھا۔

اچانک گولوک کو ایک قریبی گاؤں سے طبلہ اور ہارمونیم کا بندوبست کرنے کی درخواست آئی۔ وہاں بیٹری سے چلنے والے ساؤنڈ سسٹم کی جانچ کی جا رہی تھی۔ لکڑی کا ایک عارضی چبوترہ بنایا گیا جہاں سات یا آٹھ کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ قریب ہی تازہ کٹے ہوئے بانس کی مدد سے جھنڈا تیار کیا گیا۔

رستم جی اور گولوک انڈین سرحد کے اندر ہی رہے۔ وہ عوامی لیگ کے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ تقریب جلد ختم کریں کیونکہ انھیں اسی دن ایک اور کام سے کلکتہ واپس جانا تھا۔

نذر الاسلام کو سب سے پہلے پروفیسر یوسف علی نے عہدے کا حلف دلایا۔ اس کے بعد نذر اسلام نے تاج الدین احمد اور دیگر وزراء سے حلف لیا۔

بنگلہ دیش کا قومی ترانہ گایا گیا اور قومی پرچم لہرایا گیا۔ اس کے بعد دینج پور سے عوامی لیگ کے رکن قومی اسمبلی پروفیسر یوسف علی نے سٹیج سنبھالا اور اعلانِ آزادی پڑھنا شروع کیا۔

جلاوطنی میں کام کرنے والی بنگلہ دیش کی حکومت کی طرف سے یہ پہلا اعلان تھا۔ بیدیا ناتھ تال کا نام بدل کر ’مجیب نگر‘ رکھا گیا۔ اس وقت وہاں تقریباً 10000 لوگ موجود تھے۔ انھوں نے ایک آواز سے ’جوئے بنگلہ‘ کا نعرہ بلند کیا۔

مجیب نگر

وزیروں کو کلکتہ میں رہنے کے لیے مکانات دیے گئے
حلف لینے کے بعد تمام وزرا شام 6.30 بجے کلکتہ واپس لوٹ گئے۔ وزیروں اور ان کے اہل خانہ کو کلکتہ میں مختلف جگہوں پر رہنے کے لیے مکانات دیے گئے۔

چندر شیکھر داس گپتا اپنی کتاب ’انڈیا اینڈ دی بنگلہ دیش لبریشن وار‘ میں لکھتے ہیں، ’صرف تاج الدین اپنے دفتر میں اپنے خاندان سے الگ کمرے میں رہتے تھے اور ہر وقت کام کرتے نظر آتے تھے۔‘

’کرنل عثمانی نے بھی تھیٹر روڈ پر واقع دفتر میں اپنا ہیڈکوارٹر بنا لیا تھا اور ایک کیمپ کی چارپائی پر سوتے تھے۔ 25 اپریل کو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو ایک میڈیم ویو ٹرانسمیٹر ملا تھا جس کے ذریعے کلکتہ سے مشرقی پاکستان کے لوگوں تک مسلسل نشریات پہنچائی جاتی تھیں۔‘

جسٹس ابو سعید چودھری کو مجیب نگر حکومت کا خصوصی ایلچی بنایا گیا اور انہیں بنگلہ دیش کی جدوجہد آزادی کے لیے بین الاقوامی امداد حاصل کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔

کلکتہ میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمیشن کے بنگالی ملازمین کی ’انحراف‘ کی مہم

کلکتہ میں پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن کے سربراہ حسین علی

کلکتہ میں پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن کے سربراہ حسین علی
لیکن رستم جی اور گولوک مجمدار کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ کلکتہ میں پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن کے بنگالی ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو وفاداری بدلنے کی مہم میں مصروف تھے۔

اس سے قبل دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دو سفارت کاروں نے ہائی کمیشن چھوڑ کر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا تھا۔

وہاں سے رستم جی کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ کلکتہ میں پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن کے سربراہ حسین علی تک رسائی حاصل کی جائے اور ان کو قائل کیا جائے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے ساتھ بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کریں۔ گولوک نے ایک ریسٹورنٹ میں ڈپٹی ہائی کمشنر حسین علی سے دو بار ملاقات کی۔

لیکن جب انڈین وزارت خارجہ کے حکام کو اس منصوبے کا علم ہوا تو انھوں نے اس میں ملوث نہ ہونے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ وزارت خارجہ کا معاملہ ہے، جس میں بارڈر سکیورٹی فورس کے اعلیٰ اہلکار بلاوجہ ٹانگ اڑا رہے ہیں، جنھیں بین الاقوامی سفارت کاری کی باریکیوں کا اندازہ نہیں۔

بعد میں گولوک مجمدار نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب رستم جی نے فون کرکے اندرا گاندھی کو اس بارے میں بتایا تو وہ یہ سن کر زیادہ خوش نہیں ہوئیں۔

گولوک مجمدار (بائیں) اور انڈین آرمی چیف سیم مانیک شا (دائیں)

گولوک مجمدار (بائیں) اور انڈین آرمی چیف سیم مانیک شا (دائیں)
’وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ اپنے آپ کو اس معاملے سے دور رکھیں۔ اگر آپ نے ایک معمولی غلطی بھی کی تو میرے لیے اس کے نتائج کو برداشت کرنا بہت مشکل ہو گا۔‘

دوسری طرف حسین علی کو تشویش لاحق تھی کہ اگر وہ پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن سے باہر نکل آئے تو ان کی تنخواہ کون ادا کرے گا؟ وہ اس بارے میں تاج الدین احمد سے ملنا چاہتے تھے۔

انڈین حکام نے ان کی تاج الدین سے ملاقات کروائی۔ کے ایف رستم جی لکھتے ہیں ’تاج الدین احمد کو سٹیٹ بینک آف انڈیا میں اپنا اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ وہ انڈیا کے شہری نہیں تھے۔ میں دہلی گیا اور وزارت خزانہ میں بینکنگ سیکریٹری اردھنو بخشی سے ملا۔‘

پورا منصوبہ ریزرو بینک کے گورنر سے ملاقات کے بعد بنایا گیا تھا۔ انحراف سے ایک دن پہلے یعنی 17 اپریل کو کلکتہ کے امریکن بینک میں ڈپٹی ہائی کمشنر کے اکاؤنٹ سے تین کروڑ روپے نکال کر سٹیٹ بینک کی چورنگی برانچ میں جمع کرائے گئے۔

دو دن بعد ڈپٹی ہائی کمشنر بنگلہ دیش کے نام پر اکاؤنٹ کھولا گیا۔ حسین علی کی ’ڈیفیکشن‘ کے لیے 18 اپریل کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اس تاریخ کے انتخاب کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ افواہیں تھیں کہ حسین علی اور ڈپٹی ہائی کمیشن کے بنگالی عملے کو اسلام آباد منتقل کیا جا رہا ہے۔

گولوک نے حسین علی کا حوصلہ بڑھایا اور کہا کہ ان کا یہ قدم دوسرے ممالک میں پاکستان کے ہائی کمیشن کے بنگالی ملازمین کے لیے رول ماڈل کا کام کرے گا۔ ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد حسین علی نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی۔

اب اس بات کو یقینی بنایا جانا تھا کہ پاکستانی ڈپٹی ہائی کمیشن سے بنگالی عملے کا ’انحراف‘ اور ہائی کمیشن کی عمارت پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرانے کا عمل ایک ساتھ ہو۔

منش گھوش کہتے ہیں ’18 اپریل کو، گولوک مجمدار نے ڈپٹی ہائی کمیشن کے باہر فٹ پاتھ پر بوٹ پالش کرنے والے کے بھیس میں کھڑے ہو گئے۔‘

یہ بھیس اتنا زبردست تھا کہ رستم جی جو وہاں صبح کی سیر کرنے والے کے بھیس میں چہل قدمی کر رہے تھے، بھی انہیں پہچان نہ سکے۔ تھوڑی دیر بعد دونوں نے حسین علی کو اپنی بیوی اور دیگر 65 ملازمین کے ساتھ چھت پر دیکھا جہاں انھوں نے ’جوئے بنگلہ‘ کے نعرے لگائے اور بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا۔

یہ پہلا موقع تھا جب کسی بیرونی سرزمین پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرایا گیا۔ جیسے ہی یہ خبر آل انڈیا ریڈیو کے کلکتہ مرکز سے نشر ہوئی، کلکتہ کے ہزاروں لوگ بنگلہ دیش مشن کے باہر پہنچ گئے۔ وہاں میلے جیسا ماحول بنا ہوا تھا۔

چند منٹوں میں کلکتہ میں پاکستان کا ڈپٹی ہائی کمیشن تاج الدین حکومت کا پہلا دفتر خارجہ بن گیا۔

جب وزیراعظم اندیا گاندھی کو اس کے بارے میں بتایا گیا تو وہ اندر ہی اندر خوش ہو گئے لیکن انہوں نے سطح پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

کچھ ہی دنوں میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر اور کئی دارالحکومتوں سے بنگالی سفارت کار بنگلہ دیش کی نئی حکومت سے اپنی وفاداری کا اظہار کرنے کے لیے پاکستانی سفارت خانوں سے نکل گئے۔

Share.

Leave A Reply