سعودی عرب کو پاکستان جیسی کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کی زیر قیادت پاکستان آنے والا سعودی وفد اپنا دو روزہ دورہ مکمل کر کے کر واپس روانہ ہو چکا ہے جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف سمیت دیگر اعلیٰ پاکستانی حکام نے اس دورے کو ملک کے لیے ’نتیجہ خیز اور سود مند‘ قرار دیا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق سعودی وفد کا یہ دورہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ماہ رمضان کے آخر میں مکہ مکرمہ میں ہونے والی ملاقات کا تسلسل ہے جس کے دوران اقتصادی معاملات بالخصوص پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا ایجنڈا سرفہرست رہا۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے اپنے دورے کے دوران وزیراعظم، صدر مملکت اور آرمی چیف سے ملاقاتوں کے علاوہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اجلاس میں سرمایہ کاری سے متعلق ساز گار ماحول اور مواقع پر بریفنگ لی۔

دورے کے اختتام پر سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں اس دورے کو ’مثبت‘ قرار دیتے ہوئے معیشت کے حوالے سے کچھ حوصلہ افزا باتیں کیں اور دعویٰ کیا کہ پاکستان معاشی محاذ پر جلد ہی ’بڑے فوائد‘ دیکھے گا۔

گذشتہ ایک دہائی میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ کبھی یمن کی جنگ میں پاکستان کا فریق نہ بننا سعودی عرب کو ناگوار گزرا تو کبھی پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عمران خان کی بطور وزیراعظم ملائیشیا میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کی کوششیں ریاض کو بُری لگی۔

تاہم شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت کے حالیہ دور میں اب دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر گرمجوشی دیکھی جا رہی ہے اور ایسے میں پاکستان سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کا خواہشمند ہے۔

حکام کے مطابق پاکستان نے اس دورے کے دوران ابتدائی طور پر سعودی وفد کو آئی ٹی، معدنیات، زراعت، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے اور سعودی سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ اور تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

جبکہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے مواقع موجود ہیں اور یہ کہ سرمایہ کاری کونسل پر تفصیلی بریفنگ سے انھیں اعتماد ملا اور پاکستان کی نئی اپروچ پسند آئی ہے۔

مگر اس ’نتیجہ خیز‘ اور مثبت قرار دیے جانے والے دورے کے اختتام پر ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس کا جائزہ کیا جائے تو اب تک دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے منصوبوں کے حوالے سے کوئی واضح فریم ورک جاری نہیں کیا گیا ہے۔

اس دورے کے بعد یہ سوالات پوچھے جا رہے ہیں کہ سعودی عرب درحقیقت کن کن شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا اور اس سرمایہ کاری کا حجم کیا ہو گا؟ اور یہ کہ پاکستان جیسی غیر مستحکم اور کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے سعودی عرب کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اب سعودی عرب پاکستان سمیت دیگر دوست ممالک کو براہ راست امداد فراہم کرنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کی پالیسی پر کیوں عمل پیرا ہے؟

تصویر

یہ کیوں واضح نہیں کہ سعودی عرب کن شعبوں میں اور کتنی سرمایہ کاری کرے گا؟

منگل کی شام مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب کو آئی ٹی، معدنیات، زراعت، توانائی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی ہے۔

اس بارے میں بی بی سی نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس سی آئی ایف) کے سیکریٹری جمیل احمد قریشی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے اس ضمن میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے اقتصادی امور کے سینئیر صحافی شہباز رانا نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکام اب تک اس معاملے پر رازداری برت رہے ہیں جس کے باعث خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہےکہ حکومت واضح نہیں ہے کہ اس دورے سے متعلق میڈیا میں کس نے بات کرنی ہے۔ ایس سی آئی ایف نے وزارت خارجہ نے یا پھر وزیر اعظم سیکرٹریٹ نے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس دورے سے کبھی بھی یہ توقع نہیں تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی قسم کے معاہدوں پر دستخط ہو جائیں گے۔

’اس دورے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو سرمایہ کاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس کے جواب میں ایک سعودی وفد نے پاکستان کا دورہ کر کے یہاں سرمایہ کاری کے مواقع کے متعلق جانکاری حاصل کی۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ سعودی وفد اب واپس جا کر ان شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کے بارے میں اپنے فیصلے سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرے گا۔

معاشی امور کے تجزیہ کار خرم حسین کہتے ہیں کہ ’حکومت پاکستان کی خاموشی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ابھی پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو سرمایہ کاری کے ممکنہ مواقع کی ایک فہرست دی گئی ہے جہاں وہ سرمایہ کاری کر سکتا ہے اور کچھ منافع کما سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب پاکستان کی جانب سے بتائے گئے مواقع میں سے کتنے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کی پیشکش کو قبول کرے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان ابھی ان منصوبوں میں سعودی سرمایہ کاری اور اس کے حجم سے متعلق واضح نہیں ہے، اس لیے پاکستانی حکام اس بارے میں بات کرنے میں زیادہ عجلت میں نہیں ہیں۔

سعودی عرب کی جانب سے ممکنہ شعبوں میں سرمایہ کاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے خرم حسین نے کہا کہ چند چیزوں کا اس دورے کے دوران ذکر ہوا جس میں سعودی عرب کی دلچسپی ہے جس میں معدنیات، کان کنی خصوصاً ریکو ڈیک کا منصوبہ ہے۔

سعودی عرب کو پاکستان جیسی غیر مستحکم اور کمزور معیشت میں سرمایہ کاری سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟

تصویر

ماہر اقتصادی امور اور پاکستان کے بورڈ آف انوسٹمنٹ کے سابق سربراہ ہارون شریف نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سوال کے دو پہلو ہیں: پہلا یہ کہ پاکستان کی معیشت کا غیر مستحکم ہونا گذشتہ حکومتوں کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ پاکستانی معیشت کی کارپوریٹ پرافٹبلٹی (یعنی نجی شعبے کی کمپنیوں کے منافع بخش ہونے کی شرح) دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان نجی کمپنیوں کے منافع بہت اچھے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مارکیٹ یا معیشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں لسٹڈ تقریباً 83 کمپنیوں کے منافع ایشیا کی باقی مارکیٹوں میں ایسی کمپنیوں کے منافع سے کہیں زیادہ ہے۔ ’اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے نجی شعبے کے اندر ڈیمانڈ بھی موجود ہے اور مواقع بھی ہیں۔‘

ہارون شریف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری اس لیے کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ اپنی معیشت کو اپنے ویژن 2030 کے تحت خطے میں متنوع بنا رہا ہے، اور پاکستان چونکہ اس کا سٹریٹجک اور سفارتی اتحادی ہے چنانچہ بطور ایک مسلم ملک کے وہ یہاں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔

ہارون شریف کا کہنا تھا کہ پانچ سال پہلے انھوں نے سرمایہ کاری پر مبنی اس اشتراک کے خدوخال کو وضع کیا تھا اور اس میں تین چیزوں کو بنیاد بنایا گیا تھا ایک مذہبی سیاحت، دوسرا وہاں کام کرنے والی پاکستانی افرادی قوت اور تیسرا ہماری دفاعی پارٹنرشپ۔

خرم حسین اس بارے میں تجزیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس کا جواب ہمیں سعودی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب گذشتہ تین چار دہائیوں سے تیل سے حاصل ہونے والے پیسے کی اب تقریباً تمام دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ مگر زیادہ تر یہ سرمایہ کاری سعودی عرب کے اندر ہو رہی تھی اور اب وہ مصر سے لے کر پاکستان تک ایسی منڈیوں کی تلاش میں ہے جہاں وہ نہ صرف اپنا سرمایہ لگا سکے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے اپنا اثر و رسوخ بھی بڑھا سکے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے جہاں سے اسے منافع بھی حاصل ہو اور اس کی معیشت اور سٹریٹیجک اہمیت کو وسعت ملے۔

ہارون شریف کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ایک اور وجہ مشرقی وسطیٰ اور عرب دنیا میں تیزی سے بدلتی جیو پولیٹیکل صورتحال اور کشیدگی ہے۔ ’سعودی عرب کو پاکستان کی دفاعی مدد اور سفارتی حمایت کی ضرورت ہے، اسی لیے یہ سرمایہ کاری نجی شعبے میں نہیں آ رہی بلکہ یہ پیسہ حکومتی منصوبوں کو دیا جا رہا ہے۔‘

سعودی عرب پاکستان کو امداد دینے سے سرمایہ کاری کی جانب کیوں آیا؟

پاکستان

خرم حسین اس بارے میں کہتے ہیں سعودی عرب چند سال پہلے سے دیگر دوست ممالک کو امداد دینے کے معاملات سے نکل چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے ایسا صرف پاکستان کے ساتھ نہیں کیا گیا بلکہ انھوں نے سعودی امداد لینے والے تمام ممالک کو آگاہ کر دیا تھا کہ اگر آئندہ آپ کو کوئی ضرورت ہے تو امداد کی بجائے سرمایہ کاری کے منصوبوں کو تیار کریں۔

خرم کے مطابق سعودی عرب سے صرف پاکستان ہی نہیں مصر بھی بہت امداد لیتا تھا اور سعودی عرب نے کچھ عرصہ پہلے اپنی امداد کی بجائے سرمایہ کاری کی پالیسی کو واضح کر دیا تھا۔

ہارون شریف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی اسی نئی پالیسی کے تحت پاکستان نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کرے جس کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان نے دورہ کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سعودی خواہش ہے کہ وہ خطے میں اس مارکیٹ کے اندر منافع اور سٹرٹیجک اعتبار سے سرمایہ کاری کرے۔‘

’دوسری طرف پاکستان کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ خطے میں جو لیکیوڈیٹی ہے اس کو اپنی جانب راغب کریں کیونکہ پاکستان کو زرمبادلہ کے لیے ڈالرز کی ضرورت ہے جبکہ سعودی عرب کو سرمایہ کاری کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش، لہذا یہ دونوں ممالک کے لیے وِن وِن صورتحال ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس سرمایہ کاری سے حکومت کو کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے میں مدد ضرور ملے گی مگر اس سے عام آدمی کو ریلیف نہیں ملے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پیسہ ترقیاتی منصوبوں کا پیسہ نہیں ہے بلکہ پیسہ ’سوورن ویلتھ فنڈ‘ کا پیسہ ہے، جسے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ بھی کہا جاتا ہے اور جو سعودی عرب کے زرمبادلہ کے ذخائر کو توازن دیتا ہے۔

Share.

Leave A Reply