اگرچہ فیض آباد کمیشن کے قیام کا بنیادی مقصد ان ناکامیوں کا ذمہ داری سے تعین کرنا تھا جس کی وجہ سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا 2017 کا دھرنا کنٹرول سے باہر ہو گیا لیکن کمیشن کی رپورٹ براہ راست کسی بھی فرد پر الزام لگانے سے قاصر ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم، اس رپورٹ کا سب سے زیادہ حیران کن نتیجہ شہباز شریف کی زیرقیادت پنجاب حکومت کے خلاف ہے جس کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نہ صرف مظاہرین کو دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکنے میں ناکام رہی بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ یہ سوچ کر مظاہرین کو فیض آباد میں دھرنا کرنے کی اجازت دیں کہ اس کے بعد مظاہرین منتشر ہوجائیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کی حکومت غافل اور کمزور تھی، اگر وہ شروع میں ہی صحیح طریقے سے کام لے لیتے تو حالات ایسے نہ ہوتے، مظاہرین کو اسلام آباد جانے کی اجازت دینا ایک مناسب فیصلہ نہیں تھا، رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے کمیشن کے سامنے پیش ہونے یا اس کے کسی بھی سوال کا تحریری یا دوسری صورت میں جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کی ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کے مطابق کمیشن سے کہا گیا تھا کہ دھرنے کے لیے تحریک لبیک پاکستان کو فراہم کردہ کسی بھی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کے بارے میں انکوائری کرے، فیض آباد دھرنے کے دوران یا اس کے سلسلے میں فتویٰ یا فتویٰ جاری کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے، اگر کسی شخص یا عوامی عہدہ دار نے قانون کی خلاف ورزی کی تو اسے جوابدہ ٹھہرائے اور کسی بھی شخص یا سرکاری افسران بشمول انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے والوں کی ذمہ داری کا تعین کرے۔
تاہم، کمیشن کے ٹی او آرز کا جائزہ لینے اور کمیشن کے کام سے واقف ذرائع سے ہونے والی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی رپورٹ بہت سے ایسے سوالات پر خاموش ہے جن کا اسے جواب دینا چاہیے تھا۔
اس کے علاوہ رپورٹ نیشنل ایکشن پلان کے پہلوؤں پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی کو نوٹ کرتی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت میں فرق کو نمایاں کرتی ہے اور معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) سے انحراف کی نشاندہی کرتی ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی ایجنسیوں اور وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان تھا۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے انٹر سروسز انٹیلی جنس کو مظاہرین سے مذاکرات کی اجازت دے دی اور ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز کو ان کے خلاف آپریشن کی قیادت سونپی، تاہم ٹی ایل پی کے مظاہرین کے خلاف قانون نافذ کرنے والی حتمی کارروائی، جس کے نتیجے میں تقریباً 7 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پولیس اور ایف سی کے 250 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے، کی قیادت اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل نے کی۔
اس سے ایک قانونی سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ زمینی قوانین کے تحت مسلح افواج محض سول پاور کی مدد میں کام کرتی ہیں، اس طرح کسی بھی قانون نافذ کرنے والے آپریشن کی قیادت سول انتظامیہ پر آتی ہے جس میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، چیف کمشنر اور پولیس چیف شامل ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا لیکن راولپنڈی اور اسلام آباد پولیس کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کی وجہ سے یہ ناکام رہا، مزید کہا کہ اس سے راولپنڈی انتظامیہ اور پولیس کی مظاہرین کو روکنے میں نااہلی کا بھی اشارہ ملتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اعلی سطح پر کمزور کمانڈ اینڈ کنٹرول دیکھا گیا، رپورٹ میں پنجاب اور اسلام آباد میں پولیس کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کا ذکر بھی موجود ہے اور مشاہدہ کیا گیا کہ علاقائی دائرہ اختیار میں ایک ہی کام کرنے والی متعدد قوتیں یونٹی آف کمانڈ کے تصور کو ختم کر دیتی ہیں۔
رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ امن و امان کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک فورس ہونی چاہیے اور وہ پولیس ہے ، دوسروں پر خرچ ہونے والے وسائل کو اسلام آباد پولیس پر صرف کرنا چاہیے، سرحدی علاقوں میں گشت کے لیے رینجرز اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کو تعینات کیا گیا ہے اس لیے شہری علاقوں میں ان کے استعمال گریز کیا جا سکتا ہے۔