’حسن صباح‘، ’قلعہ الموت‘ اور ’اسماعیلی مذہب‘ کی کہانی ماہ رمضان کے دوران ایک پرکشش اور مقبول سیریز کی بنیاد تھی۔
مصری سیریز ’حشاشین‘ کی پہلی قسط کی نشریات کے ساتھ ہی ردعمل اور تعریفوں کی ایک لہر شروع ہو گئی۔
اس تاریخی سیریز کو مصر اور عرب ممالک کے ناظرین نے بہت پسند کیا اور جلد ہی یہ گوگل پر سرچ انجنز میں پہلے نمبر پر آ گئی۔
اس سیریز کی کہانی 11ویں صدی میں پیش آنے والے واقعات پر مبنی ہے جب حسن صباح اسماعیلی گروہ کے رہنما تھے۔
اس سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح حسن صباح اور ان کے ساتھیوں نے اہم سیاسی، عسکری اور مذہبی شخصیات کو قتل کیا۔
اس سیریز میں اس گروہ کو دہشت گردی اور ’قتل سکواڈ‘ کا بانی دکھایا گیا ہے۔ تاہم یہ ایک ایسا الزام ہے جسے اسماعیلی برادری مسترد کرتی ہے اور کہتے ہیں کہ اس گروہ کے طریقوں میں جدید دہشت گردوں کے ساتھ کوئی مماثلت نہیں ہے کیونکہ انھوں نے عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا تھا۔
حشاشین کیسے بنی؟
تیس اقساط پر مشتمل سیریز حشاشین کو حالیہ برسوں میں عرب دنیا میں آرٹ کے بہترین کاموں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس سیریز کی تیاری کے عمل میں تقریباً دو سال لگے اور کہا جاتا ہے کہ اس پر تقریباً 12 ملین ڈالر لاگت آئی۔
اس سیریز کے مصنف معروف مصری مصنف اور سکرین رائٹر عبدالرحیم کمال ہیں، پیٹر میمی سیریز کے ڈائریکٹر ہیں اور سیریز کے اداکار کریم عبدالعزیز، فتحی عبدالوہاب، نکولس موعود، میرنا نور الدین اور احمد عید ہیں۔
مصری ہدایت کار اور مصنف پیٹر میمی قاہرہ میڈیکل سکول سے فارغ التحصیل ہیں۔ انھوں نے طب چھوڑ کر سینما کا رخ کیا اور ان کے فنی کیریئر میں بڑی تعداد میں تاریخی فلمیں شامل ہیں جن میں ’سید کلاکیت‘، ’ہرم چہارم‘،’جنگ کارموز‘ اور ’موسیٰ‘ کے نام سرفہرست ہیں۔
سنہ 2020 میں انھوں نے مقبول سیریز ’الاختیار‘ تیار کی۔ اگرچہ اس سیریز میں اسلامی خلافت کی ملیشیاؤں کے خلاف جنگ میں ایک فوجی کمانڈر کی زندگی اور جدوجہد پر توجہ مرکوز کی گئی تھی لیکن اخوان المسلمون کے حامیوں کا کہنا تھا کہ اس سیریز کا مقصد اخوان المسلمون کے افکار اور عقائد کی مخالفت کرنا اور انھیں داعش جیسا دکھانا تھا۔
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ مصر میں برسرِ اقتدار حکومت اخوان المسلمون کے شدید کمزور ہونے کے باوجود سیاسی میدان اور اقتدار میں ان کی واپسی کے حوالے سے بہت فکرمند ہے اور اخوان المسلمون سے لوگوں کو ڈرانے کے لیے وہ مسلسل مخصوص سیریز اور فلمیں بناتی ہے۔
عرب ممالک میں مصر ایسا ملک ہے جس کے پاس اپنی سنیما انڈسٹری کو استعمال کرنے کی اعلیٰ صلاحیت موجود ہے اور یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مصری فنکار تاریخی اور مذہبی فلموں میں نطر آئے۔
جمال الدین افغانی، امام حنبل، امام شافعی اور عمر عبدالعزیز جیسی سیریز ماضی میں تیار اور نشر ہونے والی سیریز میں شامل ہیں۔ لیکن جو چیز حشاشین سیریز کو پچھلی پروڈکشنز سے ممتاز کرتی ہے، وہ اس سیریز کی نازیبا زبان ہے۔ اس سیریز میں آج کے مصر کی گلیوں اور بازاروں میں استعمال ہونے والی زبان ہے اور ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ آج کل کی اصطلاحات جو مکالموں میں استعمال کی گئیں ماضی میں عام نہیں تھیں۔
دوسری جانب اس سیریز کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سیریز فرانسیسی مصنف (لبنانی نژاد) ’امین مالوف‘ کے مشہور ناول ’سمرقند‘ سے ماخوذ ہے اور یہ ایک طرح کی چوری ہے۔
لیکن اس سیریز کے تخلیق کاروں نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ سکرپٹ ’تاریخ سے متاثر‘ ہے اور ’بات چیت کی زبان‘ اسے ناظرین کے لیے زیادہ قابل فہم بنانے کے لیے منتخب کی گئی اور یہ طریقہ دوسرے ممالک کے سنیما اور سیریز میں بھی عام ہے۔
کچھ عربی بولنے والے ناظرین نے یہ بھی کہا ہے کہ ’فارسی میں تیار ہونے والے’ یوسف نبی‘ اور ترکی میں تیار ہونے والے ’صلاح الدین ایوبی‘ جیسے سیریلز میں محارواتی زبان کا استعمال کیا گیا تھا۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب حسن صباح کے بارے میں کوئی سیریز بنائی گئی ہے۔ 2016 میں اردن سے تعلق رکھنے والے ’ایاد الخزوز‘ کی ہدایت کاری میں اور ’محمد البطوش‘ کی تحریر کردہ ’سمرقند‘ کے عنوان سے ایک سیریز رمضان کے مہینے میں دکھائی گئی لیکن اسے زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔
الموت قلعہ، حسن صباح کی حکومت کا گڑھ
الموت قلعہ
ایرانیوں کے لیے حسن صباح ایک معروف شخصیت ہیں اور ان کا نام صوبہ قزوین میں ’الموت قلعے‘ سے جڑا ہوا ہے۔
یہ جاننے کے لیے کہ حسن صباح عرب اور یورپی دنیا کے لیے ایک پرکشش شخصیت کیوں ہیں جن پر وقتا فوقتا کتابیں لکھی جاتی ہیں یا فلمیں اور سیریز بنائی جاتی ہیں، ہمیں اسلام کے آغاز کی طرف واپس جانا ہوگا جب پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد ان کی جانشینی کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے۔
اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اپنا جانشین منتخب کیا لیکن اہل سنت کا موقف مختلف ہے۔
فرہاد دفاری کی کتاب (Legends of the Hashashins, or Myths of Ismaili Devotees) میں اہل تشیع میں پڑنے والی تقسیم اور اسماعیلیوں کی تشکیل کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ چھٹے امام کے بعد امامت جعفر صادق کے سب سے بڑے بیٹے اسماعیل بن جعفر کو ملنی چاہیے تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب اسماعیل اپنے والد کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے اور انھوں نے موسیٰ کاظم کی امامت قبول نہیں کی تھی۔
اسماعیلی گروہ بھی تقسیم سے محفوظ نہیں رہا تھا اور 1094 میں 18ویں اسماعیلی امام کی وفات کے ساتھ، جو قاہرہ میں قائم فاطمی سلطنت کے آٹھویں خلیفہ بھی تھے ، ایک اور تقسیم ہوئی اور اسماعیلی دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے اور یہی وہ وقت ہے جہاں حسن صباح کہانی میں داخل ہوتے ہیں۔
وہ ایک نذری اسماعیلی مبلغ تھے جنھوں نے ایران میں فاطمیوں کے لیے کام کیا۔ مصر میں فاطمی اقتدار کے زوال کے ساتھ اسماعیلی تحریک زوال پذیر نہیں ہوئی اور حسن صباح کی قیادت میں ایک تحریک قائم ہوئی جو170 سال تک قائم رہنے کے بعد منگولوں کے الموت قلعہ پر قبضے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
تاریخ میں اسماعیلیہ گروہ کے مخالفین اور ناقدین نے اس گروہ کو مختلف ناموں سے منسوب کیا ہے، جن میں باطنیہ، تعلیمیہ، سبعیہ، قرامطہ، ملاحدہ، سفاکین اور حشیشیہ شامل ہیں۔
حشاشین اور قاتل کیوں؟
مارکو پولو نے 13ویں صدی میں ایران کا سفر کیا اور حسن صباح کی کہانی کو مشہور کرنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا
حشاشین نذری اسماعیلیوں سے منسوب معنی میں سے ایک ہے۔ لندن میں اسماعیلی سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر فرہاد دوفتری نے اپنی کتاب ’دی لیجنڈ آف حشاشین‘ میں لکھا ہے کہ حشاششین کا ’توہین آمیز‘ نام پہلی بار یورپیوں نے تجویز کیا تھا اور یہ لفظ حشیش سے لیا گیا تھا۔
ان کے مطابق نذری اسماعیلیوں کو ’آدمکشان‘ یعنی قاتلوں کا نام بھی صلیبیوں کے زمانے میں دیا گیا تھا۔
دوفتری کہتے ہیں کہ یورپیوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اس بارے میں افسانوں کا اضافہ کیا اور خاص طور پر 13 ویں صدی میں مارکو پولو کے ایران کے دورے اور حشاشین کے بارے میں ان کے مبالغہ آمیز بیانات کے ساتھ یہ افسانے اپنے عروج پر پہنچ گئے۔
مارکو پولو نے الموت قلعے کے بارے میں کہا کہ ’حسن صباح نے لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ قلعے کے پیچھے جنت جیسا باغ تیار کیا تھا اور اس نے اپنے پیروکاروں کو چرس دی تھی اور جب وہ نشے کی حالت میں ہوتے تو انھیں باغ میں لے جاتے اور انھیں بتایا جاتا کہ وہ جنت میں ہیں اور جب وہ ہوش میں آنے کے بعد اس جنت کے بارے میں پوچھتے تو ان کو جواب دیا جاتا کہ اگر وہ جنت چاہتے ہیں تو حسن صباح کی اطاعت کریں اور جنت میں واپس جانے کے لیے اس کی راہ میں مر جائیں۔‘
دوفتری کہتے ہیں کہ اس زمانے کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ حسن صباح کے 34 سالہ دور حکومت کے دوران اس گروہ نے 50 سے بھی کم قتل کیے۔
پرائمری سکول کے تین دوست
حسن صباح اور الموت قلعے کے بارے میں جنت اور مخالفین کے قتل جیسے مسائل کے علاوہ دیگر پہلوؤں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ان میں سے ایک کہانی پرائمری سکول کے تین دوستوں عمر خیام، نظام الملک اور حسن صباح کی دوستی سے متعلق ہے۔
اس سیریز میں یہ دکھایا گیا ہے کہ وہ بچپن میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر وعدہ کرتے ہیں کہ کسی بھی نوکری یا عہدے تک پہنچنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ تاریخی حوالے اس دوستی کو ایک افسانہ مانتے ہیں لیکن سیریز میں اس پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔
اس سیریز میں حسن صباح اور ان کے پیروکاروں کو سیاہ کپڑے پہنے اور سیاہ جھنڈے تھامے ہوئے دکھایا گیا ہے جو لندن میں انسٹی ٹیوٹ آف اسماعیلی سٹڈیز کے اسوسی ایٹ پروفیسر درویش محمد پور کے مطابق داعش گروپ کی یاد دلاتے ہیں۔
بی بی سی فارسی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمد پور کہتے ہیں کہ ’تاریخی ذرائع کے مطابق فاطمیوں اور اسماعیلیوں کے کپڑے اور پرچم سفید تھے اور عباسیوں کا جھنڈا سیاہ تھا۔‘
حسن صباح سیریز کے پہلے حصے میں یورپیوں (صلیبیوں) کے سامنے وہ اپنے ایک شاگرد کو خود کو نیچے پھینکنے اور خودکشی کرنے کے لیے کہتے ہیں لیکن کسی بھی تاریخی ماخذ میں ایسی کوئی بات موجود نہیں اور سیریز میں نظر آنے والے قلعے کا اسماعیلیہ قلعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
محمد پور سمجھتے ہیں کہ کہانی کا تصوراتی پہلو اور اسے لوگوں کے لیے پرکشش بنانا حسن صباح کی کہانی کو پسند کرنے کی ایک وجہ ہے جنھوں نے اسے ایک افسانے میں تبدیل کر دیا ہے اور اسی کی بنیاد پر کمپیوٹر گیمز بنیں۔
محمد پور کہتے ہیں کہ حسن صباح پر توجہ دینے کا دوسرا پہلو سیاسی ہے۔
لندن میں انسٹی ٹیوٹ آف اسماعیلی سٹڈیز کے اسوسی ایٹ پروفیسر کہتے ہیں کہ ’یہ اسماعیلیوں کی تاریخ اور ثقافتی اور فکری ورثے کے ساتھ غداری ہے اور اگر آپ ان کے کاموں کو دیکھیں تو اس گروہ میں تصوف اور فلسفہ شامل ہیں۔‘
محمد پور کہتے ہیں کہ مصری حکومت اخوان المسلمون پر قابو پانے کے لیے اسماعیلیہ، طالبان اور داعش کو ایک ظاہر کرتی ہے جبکہ حسن صباح ایک عسکری شخصیت کے ساتھ ساتھ سائنسی اور ثقافتی طور پر بھی اہمیت رکھتے تھے اور اسماعیلیہ میں ان کا مقام بانی ہے۔