غزہ کے النصر میڈیکل کمپلیکس میں مبینہ اجتماعی قبروں کی حقیقت کیا ہے؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

عربی سوشل میڈیا پر چند دن قبل صارفین کی جانب سے ایسی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی گئیں جن میں دعوی کیا گیا کہ غزہ کی پٹی میں خان یونس شہر کے النصر میڈیکل کمپلیکس کے احاطے سے مبینہ طور پر اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں اور ان سے ایسی لاشیں بھی برآمد ہوئیں جن کے سر یا دیگر جسمانی اعضا کٹے ہوئے تھے۔

سوشل میڈیا کی ان پوسٹس میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ ان لاشوں کو دفنانے سے پہلے اسرائیلی فوجیوں نے جسمانی اعضا نکال لیے تھے جبکہ چند دیگر ویڈیوز میں گلی سڑی ہوئی لاشیں بھی دیکھی گئیں۔

فلسطینی سول ڈیفینس کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ النصر میڈیکل کمپلیکس کے احاطے سے تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جہاں سے تقریبا 280 سے زیادہ لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان افراد کی موت کیسے ہوئی اور ان کو کب دفنایا گیا تھا۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ فلسطینی شہریوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیے جانے کی خبریں بے بنیاد ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ دعوی بھی کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اسی ہسپتال میں یرغمالیوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا تھا جس کے دوران فلسطینیوں کی جانب سے دفنائی جانے والی لاشوں کا معائنہ کیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کے مطابق لاپتہ اسرائیلی یرغمالیوں کی تلاش میں ان لاشوں کا معائنہ کیا گیا اور جو لاشیں اسرائیلی باشندوں کی نہیں تھیں، انھیں واپس دفنا دیا گیا تھا۔

ادھر حماس کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ یہ لاشیں ایسے افراد کی ہیں جن کو اسرائیلی فوج نے قتل کیا تاہم حماس کی جانب سے اس دعوے کے ثبوت فراہم نہیں کیے گئے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس کے سربراہ ولکر ترک نے ان اطلاعات کے منظر عام پر آنے کے بعد اس معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس کا کیا کہنا ہے؟
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس کی ترجمان نے کہا ہے کہ اس وقت فلسطینی حکام کی جانب سے النصر ہسپتال کے احاطے سے 283 لاشیں ملنے کی اطلاعات کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

روینا شمداسانی نے جینیوا میں رپورٹرز کو بتایا کہ رپورٹس کے مطابق ’ان افراد کو گہرائی میں دفنایا گیا جن میں مبینہ طور پر ادھیڑ عمر افراد، خواتین اور زخمی بھی شامل تھے اور ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ چند کے کپڑے بھی نہیں تھے۔‘

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ترک نے مطالبہ کیا ہے کہ ان اموات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کی جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ان تحقیقات میں بین الاقوامی تفتیش کار بھی شامل ہوں۔

انھوں نے کہا کہ ’بین الاقوامی قوانین کے تحت ہسپتالوں کو خصوصی تحفظ حاصل ہے۔ عام شہریوں، قیدیوں اور دیگر افراد، جو کسی لڑائی میں حصہ نہیں لے رہے، کو جان بوجھ کر قتل کرنا جنگی جرم ہے۔‘

بی بی سی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے سوشل میڈیا پر نظر آنے والی تصاویر اور ویڈیوز کا جائزہ لیا ہے اور سول ڈیفینس کے نمائندوں اور فرانزک ماہرین سے بھی بات چیت کی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ حقیقت کیا ہے۔

خان یونس

اجتماعی قبریں
بی بی سی کی ٹیم نے 25 جنوری کی ایک ویڈیو بھی دیکھی ہے جس میں فلسطینی شہریوں کو ہسپتال کے احاطے میں تقریبا 70 افراد کو دفناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس مقام کا تعین ویڈیو میں نظر آنے والی عمارات کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔

فلسطینی شہریوں کی تدفین جنوری 28 کو بھی ہوئی جس کی ویڈیوز میں 30 افراد کو دفناتے ہوئے دکھایا گیا۔ فروری میں بھی چند افراد کو سوشل میڈیا پر اب نظر آنے والی ویڈیوز میں موجود مقام سے چھ میٹر دوری پر دفنایا گیا تھا۔

فلسطینی سول ڈیفینس فورسز کے ترجمان محمود بسال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جنگ کے دوران اسرائیلی فوج کی جانب سے خان یونس کے محاصرے کی وجہ سے فلسطینی شہریوں نے اپنے اہلخانہ یا ناقابل شناخت لاشوں کو ان مقامات پر دفنایا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ جب اسرائیلی فوج نے ہسپتال پر چھاپہ مارا تو انھوں نے ان قبروں کو اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش میں کھودا اور پھر نکلنے والی لاشوں کو دوبارہ دفنا دیا جبکہ ایسے افراد کی لاشیں بھی شامل تھیں جو اس چھاپے کے دوران ہلاک ہوئے۔

محمود کے مطابق اجتماعی قبروں سے پہلے دن نکلنے والی تقریباً 80 لاشوں میں سے 30 کی شناخت ممکن تھی لیکن دیگر لاشوں کی شناخت ممکن نہیں تھی کیونکہ ان کو دفنائے ہوئے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔

فلسطینی حکام کا یہ بیان اسرائیلی فوج کے دعووں سے مطابقت رکھتا ہے تاہم اس بیان سے اس نکتے کو خارج الامکان نہیں قرار دیا جا سکتا کہ ہسپتال پر اسرائیلی فوج کے چھاپے کے دوران نئی قبریں بنائی گئیں۔

واضح رہے کہ بی بی سی کی جانب سے النصر ہسپتال میں اسرائیلی فوج کے چھاپے کی جو ویڈیوز دیکھی گئیں وہ 15 فروری کو شائع ہوئیں تھیں اور اسرائیلی فوج نے سات اپریل کو خان یونس سے انخلا کیا۔

ہم نے سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز اور تصاویر برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں فارنزک ماہر ڈاکٹر حسنین کو دکھائیں جنھوں نے بتایا کہ لاشوں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھیں مختلف اوقات میں دفنایا گیا۔

اعضا کی چوری؟
ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے زمین میں دفن کھوپڑیاں، کٹے ہوئے ہاتھ اور ٹانگیں، گلی سڑی لاشیں دیکھیں۔ اجتماعی قبر سے آنے والی بدبو بہت بری تھی۔‘

بہت سی نیوز سائٹس نے ایسے بیانات شائع کیے جن کے مطابق اسرائیلی فوج پر الزام لگایا گیا کہ لاشوں کے اعضا چرائے گئے۔

تاہم ڈاکٹر حسین ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ لاشوں کے جسموں پر موجود زخم دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ یہ طبی آلات سے لگے بلکہ یہ زخم بھاری قسم کے ہتھیاروں سے لگے۔

محمود بسال سے جب اس بارے میں بات چیت کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ایسی لاشیں جن کے سر یا چند اعضا نہیں تھے وہ مکانات یا گاڑیوں پر بمباری سے ہلاک ہونے والوں کی ہو سکتی ہیں کیونکہ اس قسم کی بمباری میں جسم کے چیتھڑے ہو جانا ممکن ہے جبکہ چند اعضا بمباری کے نتیجے میں عمارات کے منہدم ہو جانے سے بھی الگ ہو سکتے ہیں۔

’سر کٹی لاش‘؟
سوشل میڈیا پر خون میں لت پت ایک ایسی سر کٹی لاش کی تصویر بھی سامنے آئی جس کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ یہ مبینہ طور پر اجتماعی قبر سے ہی نکلی ہے۔

ڈاکٹر حسنین نے اس تصویر میں نظر آنے والی لاش کی کیفیت دیکھتے ہوئے بتایا کہ لاش کی حالت اور خون کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تصویر ہلاکت کے دن یا زیادہ سے زیادہ ایک دن بعد کی ہے۔

اس بیان سے اس دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ یہ لاش کسی ایسے شخص کی ہے جن کو اسرائیلی فوج کے سات اپریل کو انخلا سے قبل ہلاک کیا گیا۔

ایک اور تصویر میں ایک ایسی لاش موجود ہے جس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں اور اس کی حالت بھی کافی خراب ہو چکی ہے۔ اس تصویر سے متعلق دعوی کیا گیا کہ یہ ایک ایسے فرد کی لاش ہے جسے اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا تھا۔

اسرائیلی فوج نے بی بی سی کو اپنے جواب میں بتایا کہ ہسپتال پر چھاپے کے دوران کسی مریض یا عملے کے رکن کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔

تاہم بی بی سی نے النصر ہسپتال میں موجود ایک عینی شاہد کی جانب سے مہیا کی جانے والی ویڈیو فوٹیج دیکھی ہے جس میں نظر آتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے دو افراد کے ہاتھ سر کے اوپر کروا کر باندھ رکھے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے ہی جاری کردہ ایک اور فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ہسپتال کے بستروں پر لیٹے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھ ایسی ہی پوزیشن میں بندھے ہوئے ہیں۔

بی بی سی اس بات کی تصدیق نہیں کر پایا کہ یہ افراد کون ہیں اور ان کے ساتھ اس ویڈیو ریکارڈنگ کے بعد کیا ہوا۔

ناصر یونس

اسرائیلی فوج کا موقف اور النصر ہسپتال
منگل کے دن اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ نصر ہسپتال میں فوج کے آپریشن کے دوران لاپتہ افراد اور یرغمالیوں کو تلاش کرنے کی کوششوں میں فلسطینیوں کی جانب سے دفن کیے جانے والوں کی لاشوں کا جائزہ لیا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ان لاشوں کا جائزہ محتاط طریقے سے صرف ان مقامات پر کیا گیا جہاں انٹیلیجنس نے یرغمالیوں کی ممکنہ موجودگی کی نشاندہی کی اور مردہ افراد کی عزت کو مدنظر رکھتے ہوئے لاشوں کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد وہ لاشیں جو اسرائیلی یرغمالیوں کی نہیں تھیں، انھیں ان کے مقام پر لوٹا دیا گیا۔‘

اسرائیلی فوج کے مطابق ہسپتال پر چھاپے کے دوران 200 شدت پسندوں کو حراست میں لیا گیا جبکہ ایمونیشن اور اسرائیلی یرغمالیوں کے لیے مختص غیر استعمال شدہ ادویات بھی برآمد کی گئیں۔

اسرائیلی فوج کا دعوی ہے کہ اس چھاپے کے دوران عملے یا کسی مریض کو نقصان نہیں پہنچایا گیا تاہم عملے کے تین اراکین نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ’بے عزت کیا گیا، پیٹا گیا، ان پر ٹھنڈا پانی پھینکا گیا اور انھیں گھنٹوں جھکے رہنے پر مجبور کیا گیا۔‘

ہسپتال پر اسرائیلی قبضے کے دوران موجود طبی عملے نے کہا کہ 13 مریض پانی اور بجلی کی کمی سمیت مسائل کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

Share.

Leave A Reply