کل تک پنجاب کی سیاست کے لیے اہم سمجھے جانے والے سیاسی رہنما چوہدری پرویز الہی آج سیاسی بساط پر کہیں دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھنے والے اور سنہ 2013 میں پاکستان کے پہلے نائب وزیر اعظم بننے والے چوہدری پرویز الہی ضمنی انتخاب میں اپنے آبائی شہر سے صوبائی نشست بھی جیت نہیں سکے ہیں اور ان کے اپنے ہی خاندان کے مخالف امیدوار اور بھتیجے موسیٰ الہی نے انھیں بھاری فرق سے ہرا دیا۔
پاکستان بھر میں دو روز قبل ہونے والے ضمنی الیکشن میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار پرویز الٰہی جو گجرات کے حلقہ پی پی 32 سے الیکشن لڑ رہے تھے، کو گجرات سے واضح فرق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
غیر سرکاری نتائج کے مطابق موسیٰ الٰہی 63,536 ووٹوں ساتھ کامیاب ہوئے جبکہ چوہدری پرویز الٰہی صرف 18,237 ووٹ حاصل کر سکے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس ضمنی الیکشن کے نتائج میں مبینہ دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انھیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا جبکہ ان کے مطابق سب سے زیادہ دھاندلی کی شکایات پنجاب کے ضلع گجرات سے موصول ہوئیں، جہاں سابق وزیر اعلیٰ پرویز الہی کے مقابلے میں ان کے بھتیجے اور وجاہت حسین کے بیٹے موسی الہی میدان میں اترے اور جیت گئے۔
یاد رہے کہ پرویز الہی پاکستان تحریک انصاف جبکہ موسی الہی مسلم لیگ ق کے امیدوار تھے۔ پرویز الہی اس وقت جیل میں ہیں جبکہ ان کے بیٹے مونس الہی سیاسی مقدمات کے پیش نظر خود ساختہ جلاو طنی اختیار کرتے ہوئے سپین میں موجود ہیں۔
پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں نت سے تعلق رکھنے والے چودھری خاندان کا سیاسی ستارہ مشرف دور میں عروج پر پہنچا جبکہ عمران خان کے دور حکومت میں یہ ستارہ گراوٹ کا شکار ہو گیا اور اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس خاندان کے دو بڑے سیاسی نام چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الہی کی سیاسی رائیں جدا ہو گئیں۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں پرویز الہی 2018 سے 2022 تک پنجاب اسمبلی کے سپیکر رہے اور سنہ 2023 میں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ق سے راہیں جدا کر لی اور اپنے بیٹے مونس الہی سمیت پارٹی کے دس ارکان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور اس کے صدر بن گئے۔
مفاہمت، وضعداری اور پنجاب کی سیاست کے لیے اہم سمجھے جانے والے چوہدری پرویز الہی کی انتخابی سیاست میں شکست کے بعد چند سوالات نے جنم لیا ہے کہ کیا یہ انتخابی نتیجہ گجرات کے سیاسی منظر نامے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، کیا چوہدری پرویز الہٰی کی سیاست بند گلی کی طرف چلی گئی ہے یا وہ دوبارہ قومی سیاسی منظر نامے پر ابھریں گے اور یہ کہ کیا ان کی نئی سیاسی جدوجہد کا فائدہ ان کے بیٹے مونس الہی کو پہنچے گا؟
’سیاست میں چوہدریوں کی طاقت ان کا اتحاد تھا جو اب نہیں رہا‘
مسلم لیگ ق کے رہنما کامل علی آغا نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پرویز الہی نے پاکستان تحریک انصاف میں جا کر ایک نئے سرے سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔
’انھوں نے سب لوگوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے عوامی توقعات سے زیادہ پی ٹی آئی کے لیے سیاسی جدوجہد بھی کی اور اذیت بھی اٹھائی اور ابھی تک اٹھا رہے ہیں۔ اس تمام تر قربانیوں اور جدوجہد کے بعد ان کا اس پارٹی میں کیا مقام بنے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویز الہی کی صحت ٹھیک نہیں اور ان کی اس وقت کی سیاسی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس سب کا اصل فائدہ ان کے بیٹے مونس الہی اور راسخ الہی کو ہو گا حالانکہ راسخ الہی سیاست نہیں کرتے لیکن ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں مجبوری کی وجہ سے انھیں سیاست کرنی پڑ جائے جیسے قیصرہ الہی کو کرنا پڑا۔
کیا چوہدری خاندان کے ذاتی اختلافات بھی سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں، اس پر بات کرتے ہوئے کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ پاکستان کی انتخابی سیاست بالکل مختلف ہے اور اس کا موازانہ روایتی سیاست سے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چوہدری خاندان میں جائیداد کو لے کر کوئی ذاتی تنازعات نہیں بلکہ ذاتی سیاسی مفادات ہیں۔
کامل علی آغا کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت میں آج بھی کوئی تنازع نہیں بلکہ یہ مسائل تیسری نسل یعنی اولادوں میں ہیں اور دونوں طرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے سیاسی حقوق دوسرے نے چھین لیے۔
وہ کہتے ہیں کہ کچھ ذاتی خاندانی فیصلوں کے باعث دونوں بڑوں نے اپنی ساکھ کھو دی اور بچوں کے فیصلے ان کے فیصلوں پر حاوی ہو گئے۔
پی ٹی آئی میں شمولیت کرنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ میرا چوہدری پرویز الہی کے ساتھ نظریاتی اختلاف اپنی جگہ میرا ان کے ساتھ ایک ذاتی تعلق ہے اس لیے میں نے آخری حد تک کوشش کی تھی کہ وہ پارٹی نہ چھوڑیں۔ ’میں نے انھیں دو مرتبہ روکا بھی اور وہ رک بھی گئے لیکن پھر آخر کار انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہوں گے۔‘
’چوہدری شجاعت نے کہا کہ نواز شریف کی بجائے عمران خان کا وزیراعظم بننا بہتر ہے‘
چوہدری پرویز الہی کے صاحبزادے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما مونس الہی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے انھوں نے ضرور اپنے والد پر زور دیا تھا لیکن بعدازاں تمام فیصلے انھوں نے خود کیے تھے۔
بی بی سی اردو کے حسین عسکری کو چند روز قبل سپین سے دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں مونس الہی کا کہنا تھا کہ اس وقت چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الہی اور ان کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات میں چوہدری شجاعت نے مشورہ دیا تھا کہ ’یہ بہت بہتر ہے کہ نواز شریف کی بجائے عمران خان وزیر اعظم بن جائے۔‘
واضح رہے کہ پنجاب کے سابق وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی کے صاحبزادے مونس الہی ان دنوں سپین میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستان میں اُن کو کئی مقدمات کا سامنا ہے۔
انھوں نے اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ، اُن کے والد اور اُن کی پارٹی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں لیکن اُن کے والد فوج کے رویے پر افسردہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’عمران خان فوج سے بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ان کی شرط ہے کہ پہلے آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں تحریکِ انصاف کا چوری کیا گیا مینڈیٹ واپس کیا جائے۔‘
کیا چوہدری پرویز الہی اور مونس الہی دوبارہ سیاست میں ابھر پائیں گے؟
سینئیر صحافی و تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں گجرات کے علاوہ کسی اور حلقے میں دھاندلی کی شکایات نہیں آئی اور اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو یہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گا اور میرے خیال میں چوہدری پرویز الہی اور مونس الہی کو اس شکست سے نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ ان کے آبائی حلقے میں ان کی پذیرائی میں اضافہ ہو گا۔
پرویز الہی کی نئی سیاسی جدوجہد کے سوال پر مجیب الرحمان شامی کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی نظر اپنے بیٹے مونس الہی کی سیاست پر ہے، وہ ان کی سیاست کر رہے ہیں بالکل اسی طرح جیسے نواز شریف کی نظر مریم نواز کی سیاست پر ہیں۔
چوہدری خاندان میں دوری اور رقابتوں کے سوال پر مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ چوہدری برادران میں جو کچھ ہو چکا ہے اس کی نہ تو کوئی توقع کر رہا تھا اور نہ کسی کو اندازہ تھا کہ دونوں میں اس حد تک لڑائی ہو سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت کا خاندانی تعلق بہت گہرا ہے مگر اب سیاست قید و بند کا نام نہیں رہی اور ان کے بچے بڑے ہونے سے ذاتی مفادات بھی آ گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس خاندان میں جہاں سیاست میں دوری ہوئی جہاں اس خاندان کو جوڑنے والے شجاعت حسین کی صحت خراب ہوئی وہیں چوہدری پرویز الہی اپنے بیٹے مونس الہی کی سیاست کے ساتھ کھڑے ہو گئے کیونکہ مونس الہی معاملہ ساز بھی ہیں اور وہ سیاست میں آگے تک دیکھتے ہیں۔
صحافی ماجد نظامی اس سوال پر کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست ناممکنات کا کھیل ہے اور ضمنی انتخاب کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرنا کہ ان کی سیاست ختم ہو گئی یا وہ دوبارہ اتنی مقبولیت حاصل نہیں کر سکیں گے غلط ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی انھیں موقع ملے گا تو پرویز الہی اور مونس الہی واپس ابھریں گے، وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں مشرف دور میں حمزہ شہباز کی مثال سب کے سامنے ہیں کہ وہ وقت ان پر مشکل گزرا لیکن اس کے بعد انھوں نے پنجاب چلایا اور وزیر اعلیٰ بھی بنے۔ ’اسی طرح کل کو مونس الہی بھی مستقبل میں وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔‘
کیا پرویز الہی اور مونس الہی کی سیاست میں پچھاڑ کی وجہ خاندانی اختلاف ہیں کہ سوال پر ماجد نظامی تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک یہ معاملہ پرویز الہی اور شجاعت حسین کے درمیان تھا تو معاملات ٹھیک چل رہے تھے لیکن جب یہ سیاست خاندان کی تیسری نسل کو منتقل ہوئی تو عدم توازن کی کیفیت پیدا ہوئی۔
’چوہدری سالک حسین اور چوہدری شافع حسین کو یہ شکایت تھی کہ مونس الہی اور چوہدری وجاہت کے بیٹوں کو سیاسی و پارٹی معاملات میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ خاندان میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مونس الہی میں سیاسی سمجھ بوجھ زیادہ ہے اس لیے شجاعت حسین بھی اپنے بیٹوں کو آگے نہیں لاتے تھے۔
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ اس خاندان میں اس وقت زیادہ اختلافات پیدا ہوئے جب محسن نقوی نے چوہدری خاندان کی مسلم لیگ ن کے ساتھ معاملہ فہمی کروائی اور انھیں پی ڈی ایم حکومت کا راستہ دکھایا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ چوہدری سالک حسین اور محسن نقوی آپس میں ہم زلف ہیں اور اس تمام سیاسی ڈیل کے منصوبہ ساز محسن نقوی اور آصف علی زرداری تھے۔ ’اس وقت چوہدری برادران کو کہا گیا تھا کہ انھیں پی ڈی ایم کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جائے گا۔‘
ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی آج بھی جیل میں ملاقاتیں کرتے ہیں۔