پاکستان اور انڈیا کے دو قدیم تعلیمی اداروں، جن کی بنیاد تقریبا 150 سال قبل رکھی گئی تھی، میں حال ہی میں وائس چانسلر کے عہدوں پر دو خواتین کو تعینات کیا گیا جس کے بعد یہ سوال اٹھا کہ اس تاریخ ساز پیش رفت کو اتنا وقت کیوں لگا۔
واضح رہے کہ انڈیا کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر نعیمہ خاتون جبکہ پاکستان میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ڈاکٹر شازیہ بشیر کو حال ہی میں بطور وائس چانسلر تعینات کیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی تعلیمی اداروں کا قیام 19 صدی کے اختتام پر نوآبادیاتی دور کے دوران 10 سال کے وقفے سے اور مختلف مقاصد کے تحت ہوا تھا۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع جی سی یونیورسٹی کی ابتدا 1864 میں ایک سرکاری کالج کی حیثیت ہوئی جسے سنہ 2002 میں جامعہ کا درجہ ملا۔ دوسری جانب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد تقریباً 10 سال بعد سر سید احمد خان نے رکھی جب انھوں نے 1875 میں محمدن اینگلو اورئینٹل کالج کا آغاز کیا۔ 1921 میں یہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گئی۔
ان دونوں تعلیمی اداروں سے متعدد خواتین سمیت نامور شخصیات نے تعلیم حاصل کی لیکن اتنے برسوں میں ایک قدر مشترکہ دونوں میں یہ بھی رہی کہ وائس چانسلر کا عہدہ کسی خاتون کو نہ مل سکا۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جسے پہلی خاتون وی سی کے لیے 104 سال انتظار کرنا پڑا، کی پہلی چانسلر سلطان جہاں بیگم (بیگم بھوپال) خود ایک خاتون تھیں۔
تو آخر یہ روایت توڑنے والی خواتین کون ہیں اور انھیں اس عہدے تک پہنچنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی چانسلر سلطان جہاں بیگم (بیگم بھوپال)
علی گڑھ یونیورسٹی کی وائس چانسلر نعیمہ خاتون کون ہیں؟
انڈیا کی صدر دروپدی مرمو نے پروفیسر نعیمہ خاتون کو علی گڑھ یونیورسٹی کا وی سی مقرر کیا تو 1920 میں قائم ہونے والے ادارے، جس کے اب تک کے سب 21 وی سی مرد تھے، کو پہلی خاتون وائس چانسلر ملی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انڈیا میں اعلیٰ تعلیم کے باوقار اداروں میں سے ایک رہا ہے جس کے سابقہ طلبا ناصرف انڈیا بلکہ بیرون ملک بھی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ انڈیا کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین، پاکستانی سیاست دان خان عبدالغفار خان، مالدیپ کے سابق صدر محمد امین دیدی، بنگلہ دیش کے وزیر اعظم منصور علی، مورخ عرفان حبیب سے لے کر اداکار نصیر الدین شاہ تک نے اے ایم یو سے تعلیم حاصل کی ہے۔
اے ایم یو کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق نعیمہ خاتون اوڈیشہ کی رہنے والی ہیں جنھوں نے ہائی سکول کے بعد اے ایم یو سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ انھوں نے نفسیات میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور اے ایم یو میں سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن بھی رہی ہیں۔
نعیمہ خاتون نے نفسیات کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور ان کے 31 تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ اے ایم یو کی وائس چانسلر بننے سے پہلے وہ گذشتہ دس سال سے اے ایم یو ویمنز کالج کی پرنسپل تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نعیمہ خاتون نے قائم مقام وی سی پروفیسر محمد گلریز سے وی سی کے عہدے کا چارج لیا جو اتفاق سے ان کے شوہر بھی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ سوال بھی اٹھا کہ کیا نعیمہ خاتون اپنے شوہر کی وجہ سے وائس چانسلر بنیں؟
کیا نعیمہ خاتون اپنے شوہر کی وجہ سے وائس چانسلر بنیں؟
علی گڑھ یونیورسٹی کی وائس چانسلر نعیمہ خاتون
اس سوال پر پروفیسر عذرا کہتی ہیں کہ اگر گلریز صاحب نہ ہوتے تو بھی نعیمہ خاتون وائس چانسلر بن جاتیں کیوں کہ یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ ایک خاتون کو اے ایم یو کا وائس چانسلر بننا چاہیے۔
پروفیسر عذرا موسوی اے ایم یو میں سنٹر فار ویمن سٹڈیز کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ سال 2019 میں بنائے گئے اے ایم یو ویمنز کلب کی بانی سکریٹری بھی ہیں۔
عذرا موسوی کہتی ہیں کہ یہ ایک بہت اچھا قدم ہے حالانکہ یہ سو سال سے زائد عرصے کے بعد ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر یہ کام بیس سال پہلے کر لیا جاتا تو معاشرہ اس کے لیے تیار نہ ہوتا۔ ان کے مطابق اساتذہ، طالب علموں اور عملے کے لیے ذہنی طور پر یہ قبول کرنا بہت آسان ہے کیوں کہ نعیمہ خاتون پرنسپل بھی رہ چکی ہیں، اس لیے انھیں وائس چانسلر کی ذمہ داری نبھانے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2023 میں اے ایم یو ٹیچرز ایسوسی ایشن کے انتخابات میں تین خواتین اساتذہ نے کامیابی حاصل کی تھی، جو ایک بڑی تبدیلی تھی۔ اے ایم یو کے خواتین کالج میں ہندی کی سینئر اسسٹنٹ پروفیسر نازش بیگم نے انجمن کے انتخابات میں کھڑے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نازش بیگم نے کہا کہ اے ایم یو ٹیچرز ایسوسی ایشن میں خواتین کی نمائندگی کم رہی ہے، لیکن اس بار جیت نے ہمارے حوصلے بلند کیے ہیں اور ہم نے ایسوسی ایشن میں کل آٹھ رکنی نشستوں میں سے دو خواتین اساتذہ کو منتخب کرنے کے لیے قرارداد پاس کی۔ ہمیں پہلی خاتون وائس چانسلر ملنے پر بہت خوشی ہے اور اس سے دیگر خواتین کو بھی آگے آنے اور اپنی نمائندگی کا دعوی کرنے کی ترغیب ملے گی۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی وائس چانسلر ڈاکٹر شازیہ بشیر کون ہیں؟
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی وائس چانسلر ڈاکٹر شازیہ بشیر
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی حکومت پنجاب نے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شازیہ بشیر کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یو) لاہور کا قائم مقام وائس چانسلر مقرر کیا تو وہ اس تعلیمی ادارے کی 160 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون سربراہ بنیں۔
جی سی یو کا شمار بھی پاکستان کے چوٹی کے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جس کے دروازوں سے ڈاکٹر اقبال جیسے دانشور، عبدالسلام جیسے سائنسدان اور نواز شریف، یوسف رضا گیلانی جیسے سیاست دان تعلیم حاصل کر کے نکلے۔
ڈاکٹر شازیہ بشیر بھی جی سی یو کی ہی گریجوئیٹ ہیں اور انھوں نے طبعیات میں ماسٹرز کی ڈگری گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی جبکہ ایم فل یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور پی ایچ ڈی کی ڈگری آسٹریا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ویانا سے حاصل کی۔ پاکستان کے ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ 1996 سے جی سی یو میں بطور استاد خدمات انجام دے رہی ہیں۔
اس سے قبل وہ شعبہ ریاضی اور فزیکل سائنسز کی ڈین رہ چکی ہیں۔ سنٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز ان فزکس اور انسٹی ٹیوٹ آف فزکس کے ڈائریکٹر اور شعبہ طبعیات کی چیئرپرسن کے طور پر انھوں نے شعبے میں تحقیق پر نمایاں کام کیا اور ان کے 150 تحقیقی مقالہ جات نامور عالمی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔
برصغیر کے دو قدیم تعلیمی اداروں میں خواتین کو وائس چانسلر کے عہدے تک پہنچنے میں ڈیڑھ سو برس کیوں لگے؟
مورخ اور مصنف ڈاکٹر مبارک علی اس کی وجہ معاشرتی رویوں، خواتین کے خلاف اعتصابات کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مسلم معاشرے کے چند عمائدین کو بھی قرار دیتے ہیں۔
بی بی سی اردوسے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نوآبادیاتی دور میں ہی مسلم معاشرہ دو حصوں میں تقسیم تھا، ’ایک وہ جو بچوں کو مدرسے بھیجنا چاہتے تھے اور دوسرا وہ جو جدید تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘
تاہم ان کے مطابق ’سرسید احمد خان لڑکوں کے لیے جدید تعلیم کے داعی تو تھے لیکن لڑکیوں کے جدید تعلیم حاصل کرنے کے مخالف تھے۔‘
ڈاکٹر مبارک علی بتاتے ہیں کہ ’سرسید احمد خان نے اس زمانے میں پنجاب میں آ کر ایک تقریر بھی کی کہ لڑکیوں کو آج کل کی تعلیم نہیں ملنی چاہیے۔ شروع میں سرسید کی جانب سے علی گڑھ میں خواتین کا کالج کھولنے کی ایک تجویز کی بھی مخالفت کی گئی اور بعد میں بھی علی گڑھ میں کو ایجوکیشن کا رواج نہیں تھا۔‘
’ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اسی زمانے میں مشنری سکول کھلے جن میں اینگلو انڈین بچیاں پڑھنے آتی تھیں اور سرسید احمد خان نے ان کی بہت تعریف کی اور کہا کہ ان لڑکیوں کو جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ اچھی ہے لیکن وہ مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہی رہے۔‘
لیکن سرسید کے خیالات کا اثر کتنا عرصہ رہا؟
سر سید احمد خاں نے سنہ 1875 میں جو تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا وہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سہ پہچانا گیا
ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ ’اس زمانے میں سرسید کے علاوہ بھی ایسے افراد تھے جو لڑکیوں کی جدید تعلیم کے مخالف تھے جن میں اکبر آلہ آبادی بھی شامل تھے۔‘
’اقبال نے بھی لکھا کہ ’لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی، قوم نے ڈھونڈ لی ہے فلاح کی راہ۔ تو اس زمانے میں ایسے تاثرات تھے۔‘
ان کے مطابق دوسری جانب تقسیم سے قبل ہندو لڑکیوں کے بہت اچھے سکول کھلے۔
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق ’ان خیالات کا اثر اب تک مکمل طور پر زائل نہیں ہوا کیوں کہ یہاں پر عورتوں کے کالج اور یونیورسٹیاں الگ بنیں اور ابھی بھی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکمل آزادی نہیں سوائے متمول طبقے کے۔‘
لیکن کیا خواتین کو وائس چانسلر تعینات کرنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ ایسے خیالات اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں؟
ڈاکٹر مبارک علی کا ماننا ہے کہ ’یہ ایک عمل ہے اور صرف ایک یا دو تعیناتیاں ہونا یہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں کہ تبدیلی آ چکی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ یورپ میں بھی سکینڈینیویا ممالک کو چھوڑ کر بہت زیادہ جامعات میں خواتین اعلی عہدوں پر موجود نہیں ہیں۔
تاہم ان کے مطابق پاکستان کے مقابلے میں انڈیا میں اس معاملے میں زیادہ مثبت تبدیلی آئی ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں اب بھی تعصبات موجود ہیں اسی لیے تبدیلی کے عمل میں بڑا وقت لگے گا کیوں کہ ہر شعبے میں ہی خواتین کو وہ درجہ نہیں دیا جاتا جو کسی مرد کو دیا جاتا ہے۔‘