روس نے کیسے شمالی کوریا میں تیار کردہ میزائل یوکرین پر برسائے؟

Pinterest LinkedIn Tumblr +

جین میکنزی
عہدہ,نامہ نگار سیول
رواں سال دو جنوری کو ایک نوجوان یوکرینی اسلحہ انسپیکٹر کرسٹینا کیماچک کو خبر ملی کہ یوکرین کے شہر خارخیو میں ایک عمارت سے ایک غیر معمولی شکل کا میزائل ٹکرایا ہے۔

انھوں نے فوری طور پر یوکرینی فوج میں رابطے شروع کر دیے تاکہ انھیں اس میزائل کے ملبے تک رسائی مل سکے۔

ایک ہفتے کے اندر انھیں دارالحکومت کیئو میں ایک خفیہ اور محفوظ مقام پر اس میزائل کے ملبے تک رسائی دے دی گئی اور اب یہ ان کے سامنے موجود تھا۔

انھوں نے اس کے ہر ٹکڑے کی تصاویر بنانا شروع کیں جن میں ایسے پیچ اور کمپیوٹر چپس بھی شامل تھیں جن کے حجم ناخن سے بھی کم تھے۔ انھیں فوری طور پر معلوم ہو گیا تھا کہ یہ روسی میزائل نہیں ہے لیکن چیلنج یہ تھا کہ انھوں نے اسے ثابت کرنا تھا۔

کرسٹینا کیماچک کو اس ملبے کے ٹکڑوں اور تاروں کے درمیان ایک چھوٹا سا کورین زبان کا حرف نظر آیا اور پھر انھیں ایک اہم ترین چیز دکھائی دی اور وہ نمبر 112 تھا جو شیل کے کچھ حصوں پر درج تھا۔ یہ شمالی کوریا کے کیلنڈر میں سال 2023 کی نمائندگی کرتا ہے۔

یہ دیکھ کر انھیں اندازہ ہوا کہ یہ وہ اس وقت انتہائی اہم ثبوت کو دیکھ رہی ہیں جو یہ ثابت کر سکتا ہے کہ شمالی کوریا کے ہتھیار کے ذریعے ان کے ملک پر حملہ کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے مجھے فون پر کیئو سے بتایا کہ ’ہم نے سن رکھا تھا کہ انھوں (شمالی کوریا) نے روس کو اسلحہ فراہم کیا ہے لیکن اب میں اسے دیکھ سکتی تھی، چھو سکتی تھی، اس کی جانچ پڑتال کر سکتی تھی جو اب تک کوئی اور نہیں کر سکا۔ یہ میرے لیے بہت دلچسپ بات تھی۔‘

یوکرین کی فوج نے کہا ہے کہ جنوری میں کیے گئے حملے کے بعد سے روس نے یوکرین پر درجنوں شمالی کوریائی ساختہ میزائل حملے کیے ہیں جن میں اب تک کم سے کم 24 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہو چکے ہیں۔

آج کل جہاں اس حوالے سے بحث کی جا رہی ہے کہ کم جونگ اُن جوہری جنگ شروع کر سکتے ہیں وہیں فوری خطرہ یہ درپیش ہے کہ شمالی کوریا موجودہ جنگوں میں اسلحہ فراہم کر کے دنیا کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

conflict armament

کرسٹینا کیماچک کانفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ (سی اے آر) کے ساتھ کام کرتی ہیں، یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو جنگ میں استعمال ہونے والا اسلحے پر تحقیق کرتا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جائے کہ اسے کیسے بنایا گیا۔

کرسٹینا نے جب اس ملبے کی متعدد تصاویر بنا لیں اور ان کی ٹیم کی جانب سے اس کے سینکڑوں پرزوں کی جانچ پڑتال کر لی گئی تو ایسے میں ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا۔

یہ میزائل جدید ترین غیر ملکی ٹیکنالوجی سے لیس تھا۔ اس میں استعمال ہونے والے اکثر پرزے گذشتہ چند سالوں کے دوران یورپ اور امریکہ میں تیار کیے گئے تھے۔ یہاں تک کے اس میزائل میں ایک ایسی امریکی ساختہ کمپیوٹر چپ استعمال ہوئی تھی مارچ 2023 میں تیار کی گئی تھی۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ شمالی کوریا نے خفیہ طور پر اسلحے کے انتہائی اہم پرزے خریدے تھے، انھیں درآمد کیا، میزائل میں استعمال کیا اور پھر خفیہ طور روس کو بیچ دیا جہاں سے یہ یوکرین جنگ میں فرنٹ لائن پر بھیجے گئے اور پھر فائر بھی کر دیے گئے۔ یہ سب چند ماہ کے اندر کر دیا گیا۔

سی اے آر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیمیئن سپلیٹرز کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے لیے سب سے زیادہ حیران کرنے والی چیز تھی کہ لگ بھگ دو دہائیوں سے انتہائی کڑی پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا ہتھیار بنانے کے لیے اپنی ضروریات پوری کر رہا ہے اور یہ سب برق رفتاری سے کرنا کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

لندن میں جوزف بائرن جو رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ (آر یو ایس آئی) میں شمالی کوریا کے امور کے ماہر ہیں بھی اس انکشاف پر اتنے ہی حیران ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ شمالی کوریا کے بیلسٹک میزائل یورپی سرزمین پر لوگوں کو ہلاک کرنے میں استعمال ہوں گے۔‘ وہ اور ان کی ٹیم تب سے شمالی کوریائی اسلحے کی ترسیل کو مانیٹر کر رہی ہے جب سے کم جونگ ان کی اپنے ہم منصب ولادیمیر پوتن سے گذشتہ سال ستمبر میں ایک مبینہ اسلحہ معاہدہ کرنے کے لیے ملاقات کی تھی۔

سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کے ذریعے انھوں نے چار روسی کارگو بحری جہازوں کی نگرانی کی ہے جو اس عرصے میں شمالی کوریا اور روسی فوجی بندرگاہ کے درمیان آمد و رفت کے دوران ہزاروں کنٹینرز لادے اور اتارے ہیں۔

آر یو ایس آئی کے اندازوں کے مطابق کل سات ہزار کنٹینر بھیجے گئے ہیں جن میں 10 لاکھ سے زیادہ ایمونیشن شیل اور گریڈ راکٹس موجود تھے جنھیں اسلحہ بردار ٹرکوں سے بڑی تعداد میں فائر کیا جا سکتا ہے۔ ان کے تجزیوں کو امریکہ، برطانیہ اور جنوبی کوریا کی انٹیلیجنس معلومات بھی سہارا دیتی ہیں تاہم روس اور شمالی کوریا کی جانب سے کسی بھی قسم کی تجارت کی تردید کی گئی ہے۔

بائرن کہتے ہیں کہ ’ان شیلز اور راکٹوں کی مانگ دنیا میں بہت زیادہ ہے اور یہ روس کو یوکرین کے شہروں پر ایک ایسے موقع پر بمباری کرنے کی صلاحیت فراہم کر رہے ہیں جب امریکہ اور یورپ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے میں سست روی کا شکار ہیں۔‘

conflict armament

میزائلوں کی خریداری سے انھیں فائر کرنے تک کا عمل
تاہم ایک جنگ کے دوران بیلسٹک میزائلوں کی فراہمی نے بائرن اور ان کے ساتھیوں کو خاصا پریشان کیا ہے کیونکہ یہ شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں اہم انکشافات کرتا ہے۔

1980 کی دہائی سے شمالی کوریا نے اپنے ہتھیار بیرون ملک فروخت کرنے کا آغاز کیا تھا جن میں سے زیادہ تر شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بشمول لیبیا، شام اور ایران کو فروخت کیے جاتے رہے۔ ان میزائلوں کی شہرت زیادہ اچھی نہیں تھی کیونکہ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ پرانے، سوویت طرز کے میزائل ہیں۔

اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ حماس کے جنگجوؤں نے ممکنہ طور پر پیانگ یانگ کے پرانے راکٹ پروپیلڈ گرینڈز کا استعمال گذشتہ سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر اپنے حملے میں کیا تھا۔

لیکن دو جنوری کو جو میزائل روس کی جانب سے خارخیو پر فائر کیا گیا جس کا معائنہ کرسٹینا کیماچک کی جانب سے کیا گیا تھا شمالی کوریا کا جدید ترین ہواسونگ 11 معلوم ہوتا ہے جس میں 700 کلومیٹر دور ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

اگرچہ یوکرین کی جانب سے ان میزائلوں کے دستگی کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے ہیں لیکن مڈل بیری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں شمالی کوریا کے ہتھیاروں اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے ماہر ڈاکٹر جیفری لیوس کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ روسی میزائلوں سے زیادہ برے نہیں ہیں۔

ڈاکٹر لیوس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا بتایا کہ ’ان میزائلوں کا فائدہ یہ ہے کہ یہ انتہائی سستے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ خرید سکتے ہیں اور زیادہ فائر کر سکتے ہیں تاکہ آپ دشمن کے ایئر ڈیفنس پر بوجھ ڈال سکیں اور روس بھی یہی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

اس کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ شمالی کوریا ایسے کتنے میزائل تیار کر سکتا ہے۔ جنوبی کوریا کی حکومت کی جانب سے جاری معلومات کے مطابق شمالی کوریا نے اسلحے سے لدے 6700 کنٹینرز روس کو بھیجے ہیں۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی معلومات کے مطابق پیانگ یانگ کی ہتھیاروں کی فیکٹریاں اپنے زیادہ سے زیادہ صلاحیت پر کام کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر لیوس جو سیٹلائٹ کے ذریعے ان فیکٹریوں کا مطالعہ کرتے رہے ہیں کا خیال ہے کہ یہ فیکٹریاں ایک سال میں سینکڑوں میزائل بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

سپلیٹرز اور ان کی ٹیم جو تاحال اس حیران کن انکشاف کے بعد ششدر ہیں اب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ سب کیسے ممکن ہو سکا ہے کیونکہ کمپنیوں پر شمالی کوریا کو پرزے فروخت کرنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔

سپلیٹرز اس بارے یں وضاحت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اکثر کمپیوٹر چپس جو جدید ہتھیاروں کا ایک اہم جزو ہیں اور انھیں فضا کے ذریعے اپنے مطلوبہ اہداف تک پہنچانے میں مدد دیتی ہیں یہی چپس ہمارے فونز، واشنگ مشینوں اور کاروں کو چلانے میں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

یہ پوری دنیا میں بہت بڑی تعداد میں فروخت ہو رہی ہیں۔ انھیں تیار کرنے والی کمپنیاں اربوں ایسی چپس فروخت کرتی ہیں جس کے بعد انھیں لاکھوں میں فروخت کیا جاتا ہے ایسے میں یہ پتا لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ کس نے خریدیں اور آخرکار ان کا استعمال کس چیز میں ہوا۔

تاہم بائرن کو یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ ان میزائلوں میں اکثر پرزے مغربی ممالک میں بنے تھے۔ وہ خود شمالی کوریا کی جانب سے پرزوں کی خریداری پر نظر رکھتے ہیں اور انھیں معلوم ہوا کہ کیسے شمالی کوریا کا یہ پرزے خریدنے کا نیٹ ورک کہیں زیادہ مضبوط اور مؤثر تھا۔

میزائل

ان کے تجربے کے مطابق بیرون ملک مقیم شمالی کوریائی باشندوں نے ہانگ کانگ یا دیگر وسطی ایشیائی ممالک میں جعلی کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں اور عموماً چوری شدہ کیش کا استعمال کرتے ہوئے یہ پرزے خریدے جاتے ہیں۔

یہ کمپنیاں پھر یہ مصنوعات شمالی کوریا بھیجتی ہیں اور ایسا عام طور پر چین کے ساتھ شمالی کوریا کی سرحد کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اگر ایک جعلی کمپنی کے بارے میں حکام کو معلوم ہو جائے اور اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں تو اس کی جگہ ایک اور کمپنی جلد ہی بنا دی جاتی ہے۔

پابندیوں کو طویل عرصے سے ان نیٹ ورکس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک غیرمؤثر اقدام کے طور پر دیکھا جاتا رہ ہے لیکن اگر انھیں مؤثر انداز میں نافذ کرنا ضروری ہے تو انھیں باقاعدگی سے اپ ڈیٹ اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ روس اور چین دونوں نے ہی 2017 سے شمالی کوریا پر نئی پابندیاں عائد کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔

پیانگ یانگ کے ہتھیار خرید کر ماسکو اب ان پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے جن کے لیے اس نے کبھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے ووٹ دیا تھا۔ پھر اس سال کے شروع میں اس نے اقوامِ متحدہ کے ایک ایسے پینل کا خاتمہ کر دیا جو پابندیوں کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتا تھا اور ایسا ممکنہ طور پر جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے کیا گیا۔

بائرن نے کہا کہ ’ہم شمالی کوریا کے خلاف اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کو ختم ہوتا دیکھ رہے ہیں جو پیانگ یانگ کو اس دوران قیمتی وقت مل رہا ہے۔

اس سب کے اثرات یوکرائن کی جنگ سے کہیں آگے جا سکتے ہیں۔

بائرن کا کہنا ہے کہ ’یہاں حقیقی فاتح شمالی کوریا کے لوگ ہیں۔ انھوں نے ایک اہم موقع پر مؤثر انداز میں روسیوں کی مدد کی ہے جس سے اب انھیں مستقبل میں فائدہ ہو سکتا ہے۔‘

آر یو ایس آئی کے مطابق مارچ میں روس سے شمالی کوریا کو بڑی مقدار میں تیل کی فراہمی کی گئی۔ جبکہ چاول اور آٹے سے بھری ریل کاروں کو روس سے شمالی کوریا کی زمینی سرحد عبور کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ روس اور شمالی کوریا کے درمیان مبینہ معاہدے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کروڑوں پاؤنڈ کا ہے اور اس سے نہ صرف پیانگ یانگ کی معیشت بلکہ اس کی فوج کو بھی مدد ملے گی۔

روس شمالی کوریا کو میزائلوں کی تیاری جاری رکھنے کے لیے خام مال بھی فراہم کر سکتا ہے یا یہاں تک کہ فوجی ساز و سامان جیسے کہ لڑاکا طیارے اور اس اشتراک کی انتہائی حد یہ ہو گی کہ روس شمالی کوریا کو اپنے جوہری ہتھیاروں کو بہتر بنانے کے لیے تکنیکی مدد فراہم کرے۔

شمالی کوریا کو پہلی بار حقیقی جنگ کے منظر نامے میں اپنے جدید ترین میزائلوں کا تجربہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس قیمتی ڈیٹا کے ذریعے یہ انھیں بہتر بنانے کے قابل ہو جائے گا۔

یوکرین

پیانگ یانگ: ایک بڑا میزائل فراہم کرنے والا ملک بن سکتا ہے؟
مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ جنگ شمالی کوریا کو باقی دنیا میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کر رہی ہے۔

ڈاکٹر لیوس کہتے ہیں کہ ’اب جب کہ پیانگ یانگ بڑے پیمانے پر ان ہتھیاروں کی تیاری کر رہا ہے تو وہ انھیں مزید ممالک کو فروخت کرنا چاہے گا اور اگر میزائل روس کے لیے کافی ہیں تو وہ دیگر ممالک کے لیے بھی کافی ہوں گے۔ ساتھ ہی اب روس یہ مثال بھی قائم کر رہا ہے کہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنا ٹھیک ہے۔‘

انھوں نے پیش گوئی کی ہے کہ شمالی کوریا آنے والے عرصے میں چین، روس اور ایران بلاک کے لیے میزائلوں کا ایک بڑا سپلائر بن سکتا ہے۔ گذشتہ ماہ اسرائیل پر ایران کے حملے کے تناظر میں امریکہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اسے ’انتہائی تشویش‘ ہے کہ شمالی کوریا ایران کے ساتھ اپنے جوہری اور بیلسٹک ہتھیاروں کے پروگرام پر ممکنہ طور پر کام کر رہا ہے۔

سپلیٹرز کہتے ہیں کہ ’جب ہم اس مسئلے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو مجھے بہت سارے اداس چہرے نظر آتے ہیں، لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ اب ہم جانتے ہیں کہ وہ غیر ملکی ٹیکنالوجی پر کتنا انحصار کرتے ہیں اور ہم اس بارے میں کچھ کر سکتے ہیں۔‘

سپلیٹرز پُر امید ہیں کہ مینوفیکچررز کے ساتھ کام کر کے وہ شمالی کوریا کی سپلائی چین کو کاٹ سکتے ہیں۔ ان کی ٹیم پہلے ہی ایک غیر قانونی نیٹ ورک کی نشاندہی کرنے اور اسے ایک اہم فروخت کرنے سے پہلے ہی بند کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔

لیکن ڈاکٹر لیوس اب بھی پریشان ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم اسے مزید مشکل، زیادہ تکلیف دہ بنا سکتے ہیں، شاید انھیں روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات پر آنے والی لاگت میں اضافہ کر سکتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی اقدام شمالی کوریا کو ان ہتھیاروں کو بنانے سے نہیں روک سکتا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ مغرب شمالی پر قابو پانے کی اپنی کوشش میں ناکام رہا ہے۔

ڈاکٹر لیوس کہتے ہیں کہ اب نہ صرف شمالی کے میزائل سیاسی طاقت کا ذریعہ ہیں بلکہ وہ ان سے بہت زیادہ رقم بھی کما رہے ہیں۔ تو کم جونگ انھیں بنانا کیوں چھوڑیں گے؟

Share.

Leave A Reply