میں عراق کے ایک شاپنگ مال میں موجود ہوں اور میرے سامنے یورپ میں تارکین وطن کی سمگلنگ کرنے والا سب سے بدنام سمگلر بیٹھا ہے۔
اِس کا نام بارزان مجید ہے جو برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی پولیس کو مطلوب ہے۔ اُس دن اور اگلے دن بارزان کے دفتر میں ہونے والی بات چیت کے دوران بارزان نے بتایا کہ اس کو معلوم نہیں کہ وہ کتنے تارکین وطن کو انگلش چینل عبور کروا چکا ہے۔ ’شاید ایک ہزار، شاید 10 ہزار، میں نہیں جانتا، میں نے کبھی گنتی نہیں کی۔‘
ہماری یہ ملاقات چند ماہ پہلے تک ناممکن نظر آتی تھی۔ تارکین وطن کے ساتھ کام کرنے والے ایک سابق فوجی روب لاری سے مل کر میں نے اُس شخص کی تلاش کا آغاز کیا تھا جسے ’سکارپیئن‘ (یعنی بچھو) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کئی سال سے بارزان اور اُن کا گینگ انگلش چینل پر کشتیوں اور بسوں کے ذریعے انسانی سمگلنگ کا بڑا حصہ کنٹرول کرتا رہا ہے۔ سنہ 2018 سے اب تک 70 افراد کشتی کے ذریعے سفر کرتے ہوئے موت کے منھ میں جا چکے ہیں اور گذشتہ سال ہی فرانس کے ساحل پر پانچ افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک سات سالہ بچی بھی شامل تھی۔
یہ ایک خطرناک سفر ہے جو سمگلروں کے لیے مالی طور پر کافی فائدہ مند بھی ہے کیوں کہ وہ کشتی کے سفر کے لیے ایک فرد سے چھ ہزار پاؤنڈ وصول کرتے ہیں۔ سنہ 2023 میں تقریبا 30 ہزار افراد نے اس طریقے سے سفر کرنے کی کوشش کی جس سے منافع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
’بچھو‘ میں ہماری دلچسپی کا آغاز ایک ایسی چھوٹی سی لڑکی سے ملاقات سے ہوا جو ہمیں شمالی فرانس کے ایک تارکین وطن کیمپ میں ملی تھی۔ چھوٹی سی کشتی میں انگلش چینل پار کرنے کی کوشش میں وہ تقریبا ہلاک ہونے والی تھی کیوں کہ جس کشتی پر وہ سوار تھی وہ سستی اور سمندری سفر کے لیے ناقابل استعمال تھی۔ کشتی میں سوار 19 افراد کے پاس لائف جیکٹس تک نہیں تھیں۔
سمندر میں اس طرح سے لوگوں کو کون بھجواتا ہے؟
برطانیہ میں جب پولیس غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کرتی ہے تو ان کے فون کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سنہ 2016 سے ایک ہی نمبر پولیس کو بار بار ملا جو اکثر ’بچھو‘ کے نام سے محفوظ ہوتا تھا۔ چند لوگوں نے اس نمبر کو بچھو کی تصویر کے ساتھ محفوظ کیا ہوا تھا۔
برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کے سینیئر تفتیشی افسر مارٹن کلارک نے ہمیں بتایا کہ افسران کو یہ علم ہوا کہ بچھو دراصل ایک کرد عراقی شہری ہیں جن کا اصل نام بارزان مجید ہے۔
سنہ 2006 میں 20 سالہ بارزان مجید ایک ٹرک کے پیچھے چھپ کر برطانیہ میں داخل ہوئے تھے اور کئی سال تک برطانیہ میں مقیم رہے جس کے دوران اسلحہ اور منشیات سے جڑے مقدمات میں انھوں نے قید بھی کاٹی۔
سنہ 2015 میں بارزان کو برطانیہ سے عراق ملک بدر کر دیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے کچھ ہی عرصے بعد بارزان کو اپنے بڑے بھائی کا انسانی سمگلنگ کا کاروبار ورثے میں ملا جو خود بیلجیئم کی ایک جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔ یوں بارزان مجید ’بچھو‘ بن گیا۔
بارزان مجید، 2012 میں برطانیہ میں ناٹنگھم میں بطور کار مکینک کام کرتے ہوئے
سنہ 2016 سے 2021 کے درمیان بچھو کے گینگ نے یورپ اور برطانیہ میں انسانی سمگلنگ کا بڑے پیمانے پر کام کیا جس کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہونے والے پولیس آپریشن کی مدد سے اس گینگ کے 26 اراکین کو برطانیہ، فرانس اور بیلجیئم کی عدالتوں میں سزا ہوئی۔ لیکن بچھو گرفتار نہیں ہو سکا اور پولیس کی گرفت سے دور رہا۔
بیلجیئم کی ایک عدالت نے بچھو کو اکتوبر 2022 میں 10 سال قید اور 10 ملین یورو جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ تب سے بچھو کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا اور ہم یہی معمہ حل کرنا چاہتے تھے۔
روب کے ایک جاننے والے نے ہمیں ایک ایرانی شخص سے ملوایا جس کا کہنا تھا کہ اس نے انگلش چینل پار کرنے کی کوشش میں بچھو سے رابطہ کیا تھا۔ بچھو نے اس ایرانی شخص کو بتایا تھا کہ وہ ترکی سے اپنا کاروبار چلا رہا ہے۔ بیلجیئم میں ہم بارزان کے بڑے بھائی تک پہنچے جو رہا ہو چکا تھا۔ اس نے بھی کہا کہ بچھو ترکی میں ہی ہے۔
برطانیہ میں داخل ہونے کے خواہشمند زیادہ تر تارکین وطن کے سفر میں ترکی ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ افریقہ، ایشیا یا مشرق وسطیٰ سے ترکی کا ویزا حاصل کرنا اتنا زیادہ مشکل نہیں۔
ہمیں ایک اطلاع ملی جس کی مدد سے ہم استنبول کے ایک ایسے کیفے پہنچے جہاں انسانی سمگلروں کا آنا جانا رہتا تھا۔ بارزان مجید کو حال ہی میں اس کیفے میں دیکھا گیا تھا۔ ہماری ابتدائی تفتیش نتیجہ خیز نہیں رہی۔ جب ہم نے مینیجر سے انسانی سمگلروں کے بارے میں پوچھا تو کیفے میں خاموشی چھا گئی۔
بچھو اپنے بھائیوں کے ساتھ – تصویر کی تاریخ اور مقام انجان ہے
ایک شخص ہماری میز کے قریب سے گزرا تو اس نے اپنی جیکٹ کھول کر دکھایا کہ اس کے پاس پستول موجود ہے۔ یہ ایک یاد دہانی تھی کہ ہمارا واسطہ خطرناک لوگوں سے پڑا تھا۔
لیکن ہمارے اگلے پڑاؤ پر ہمیں پتہ چلا کہ بارزان مجید نے حال ہی میں ایک منی ایکسچینج کے پاس دو لاکھ یورو جمع کروائے ہیں جو چند گلیاں دور ہے۔ ہم نے اس ایکسچینج پر اپنا نمبر چھوڑ دیا۔
اسی رات دیر گئے روب کے فون کی گھنٹی بجی۔ فون کرنے والے کا نمبر نہیں آ رہا تھا لیکن دوسری جانب موجود شخص کا دعویٰ تھا کہ وہ بارزان مجید ہے۔ رات گئے اس غیر متوقع فون نے ہمیں ریکارڈنگ کا وقت بھی نہیں دیا۔ روب کو یاد ہے کہ فون پر ایک آواز نے کہا ’مجھے پتہ چلا کہ تم مجھے تلاش کر رہے ہو۔ میں نے کہا تم کون ہو، بچھو؟ اس نے کہا تم مجھے اس نام سے پکارنا چاہتے ہو؟ چلو ٹھیک ہے۔‘
کیا یہ واقعی بارزان مجید تھا؟ یہ بتانا مشکل تھا لیکن جو تفصیلات اس شخص نے فراہم کیں وہ ہماری معلومات سے مطابقت رکھتی تھیں۔ اس نے بتایا کہ وہ سنہ 2015 تک برطانیہ میں ناٹنگھم میں رہائش پذیر تھا جب اسے ملک بدر کیا گیا۔ تاہم اس نے انسانی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔
’یہ سچ نہیں ہے۔ یہ صرف میڈیا کا کام ہے۔‘
فون لائن بار بار کٹ رہی تھی اور ہماری کوشش کے باوجود فون کرنے والے نے اپنے اصل مقام کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ پھر فون کرے گا یا نہیں۔ اس دوران روب کے ایک جاننے والے نے بتایا کہ بچھو اب لوگوں کو ترکی سے یونان اور اٹلی سمگل کر رہا ہے۔
استنبول: ترکی یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کے سفر کی اہم منزل ہے
ہمیں پریشان کن تفصیلات ملیں کہ کیسے 12 لوگوں کے لیے بنائی جانے والی کشتی پر خواتین اور بچوں سمیت 100 لوگوں کو لادا جاتا ہے جن کو اکثر غیر تجربہ کار سمگلر کوسٹ گارڈ پٹرول سے بچنے کے لیے چھوٹے جزائر کے بیچ خطرناک سمندری راستے سے لے کر جاتے ہیں۔
لیکن اس کام میں بہت پیسہ تھا۔ کشتی میں بیٹھنے کے لیے ایک مسافر 10 ہزار پاؤنڈ تک دینے کو تیار تھا۔ گذشتہ 10 سال کے دوران اندازے کے مطابق سات لاکھ 20 ہزار لوگوں نے اسی راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کی جن میں سے ڈھائی ہزار ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
’ایس او ایس میڈیٹرینیئن‘ نامی فلاحی ادارے میں کام کرنے والی جولیا شیفیرمیئر کا کہنا ہے کہ ’انسانی سمگلر لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے ہیں۔ میرے خیال میں ان کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ لوگ زندہ رہتے ہیں یا مر جاتے ہیں۔‘
اسی دوران ہمیں موقع ملا کہ ہم یہ سوال براہ راست بچھو سے کر سکیں۔ اچانک ایک دن اس نے دوبارہ ہمیں فون کیا۔ ایک بار پھر اس نے انسانی سمگلنگ کے الزامات کی تردید کی۔ لیکن اس کی تشریح سے محسوس ہوا کہ اس کے نزدیک انسانی سمگلر وہ ہوتا ہے جو یہ کام کرنے میں کوئی کردار ادا کرتا ہے نہ کہ ایسا شخص جو پیچھے بیٹھا ڈوریاں ہلا رہا ہوتا ہے۔
اس نے کہا کہ ’آپ کو وہاں ہونا چاہیے، میں تو اس وقت بھی وہاں نہیں ہوں۔‘ اس نے کہا کہ وہ صرف پیسوں والا آدمی تھا۔ بارزان مجید نے ڈوب جانے والے تارکین وطن سے بھی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔
اس نے کہا ’خدا نے لکھ رکھا ہے کہ کس نے کب مرنا ہے لیکن کبھی کبھار یہ کسی کی اپنی غلطی سے بھی ہو سکتا ہے۔ خدا تو کبھی نہیں کہتا کہ کشتی میں جا کر بیٹھو۔‘
ہماری اگلی منزل مرمارس کا ریزورٹ تھا جہاں ترکی کی پولیس کے مطابق بچھو کا ایک وِلا تھا۔ ہم نے بچھو کے بارے میں تحیقق کی اور پھر ہمیں ایک فون آیا۔ یہ ایک خاتون تھیں جو جانتی تھیں کہ بارزان انسانی سمگلنگ میں ملوث رہا ہے۔ اس نے کہا کہ ’یہ کام برزان کے لیے پرشانی کی وجہ بنا لیکن اس کی پریشانی پیسہ تھا، نہ کہ تارکین وطن کا مقدر۔‘
اس خاتون نے کہا کہ ’اسے ان کی فکر نہیں اور یہ افسوسناک بات ہے، ہے ناں؟ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں سوچ کر مجھے شرم محسوس ہوتی ہے کیوں کہ میں نے باتیں سُنیں جو اچھی نہیں تھیں۔‘
اس خاتون نے بتایا کہ انھوں نے بارزان کو اس ولا میں حالیہ وقتوں میں نہیں دیکھا لیکن کسی نے ان کو بتایا تھا کہ وہ عراق میں موجود ہو سکتا ہے۔
ایک اور شخص نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ بچھو کو کرد خطے کے سلیمانیہ شہر میں ایک منی ایکسچینج پر دیکھا گیا۔
ہم یہ جان کر سفر پر نکل پڑے اور ہم نے سوچ کیا تھا کہ اگر بچھو ہمیں وہاں بھی نہ ملا تو ہم اپنی تلاش ترک کر دیں گے۔ لیکن روب کا جاننے والا بچھو سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بارزان شروع میں شک کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہم کہیں اسے پکڑ کر واپس یورپ نہ لے جائیں۔
پہلے روب کے جاننے والے کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ ہوا۔ پھر خود روب سے بات چیت ہوئی تو بچھو ہم سے اس شرط پر ملنے کے لیے تیار ہوا کہ ملاقات کا مقام وہ خود چنے گا۔ ہم نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا کہ کہیں بچھو ہمارے لیے کوئی جال نہ بچھانے کی تیاری کر رہا ہو۔
پھر اچانک ایک پیغام آیا جس میں صرف یہ پوچھا گیا کہ ’تم کہاں ہو؟‘ ہم نے بتایا کہ ہم ایک نزدیکی شاپنگ مال جا رہے ہیں۔ بچھو نے کہا کہ وہ ہمیں اسی مال کے گراونڈ فلور پر ایک کافی کی دکان میں ملے گا۔
یوں آخرکار ہمارا بچھو سے آمنا سامنا ہوا۔
بارزان مجید کسی متمول گولفر جیسا لگ رہا تھا۔ اس نے بہت اچھے کپڑے پہن رکھے تھے، نئی کالے رنگ کی جینز، ہلکے نیلے رنگ کی قمیض اور ایک کالے رنگ کی جیکٹ۔ اس نے اپنے ہاتھ میز پر رکھے تو میں نے دیکھا کہ اس کے ناخن بھی بہت اچھے طریقے سے تراشے ہوئے تھے جیسے کسی بیوٹی سیلون سے۔ تین لوگ قریب ہی ایک دوسری میز پر موجود تھے جو ہمارے خیال میں اس کی سکیورٹی ٹیم تھی۔
اس نے کسی مجرمانہ تنظیم کا بڑا کھلاڑی ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ دوسرے گینگ کے اراکین نے اسے پھنسانے کی کوشش کی ہے۔ ’جب کوئی پکڑا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ہم اس کے لیے کام کر رہے ہیں کیوں کہ وہ کم سزا لینا چاہتے ہیں۔‘
بارزان اس بات پر رنجیدہ نظر آیا کہ چند انسانی سمگلروں کو برطانوی پاسپورٹ تک ملا چکا ہے جو اپنا دھندہ بھی کر رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ ’ایک شخص نے تین دن میں 170 یا 180 لوگوں کو ترکی سے اٹلی بھجوایا اور وہ برطانوی پاسپورٹ رکھتا ہے۔ میں کاروبار کے لیے دوسرے ممالک جانا چاہتا ہوں لیکن نہیں جا سکتا۔‘
جب ہم نے تارکین وطن کی اموات میں اس کی ذمہ داری پر بات کی تو اس نے وہی بات دہرائی جو پہلے فون پر کر چکا تھا کہ وہ صرف پیسے وصول کرتا ہے اور جگہوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی سمگلر ایسا شخص ہوتا ہے جو لوگوں کو کشتیوں یا بسوں پر بٹھا کر سفر کرواتا ہے۔ ’میں نے کبھی کسی کو کشتی میں نہیں بٹھایا اور کبھی کسی کو نہیں مارا۔‘
ہماری بات چیت ختم ہوئی تو بچھو نے روب کو وہ منی ایکسچینج دیکھنے کی دعوت دی جہاں سے وہ کام کرتا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا دفتر تھا۔ کھڑکی پر عربی زبان میں ایک عبارت درج تھی اور چند فون نمبر تحریر تھے۔ یہاں لوگ سفر کے لیے پیسہ دینے آتے تھے۔ روب نے بتایا کہ اس نے ایک شخص کو پیسوں سے بھرا ہوا ڈبہ اٹھائے دیکھا۔
اسی جگہ پر بچھو نے بتایا کہ 2016 میں وہ کیسے اس کاروبار کی طرف آیا جب ہزاروں لوگ یورپ کا رخ کر رہے تھے۔ اس نے کہا ’کسی نے ان سے زبردستی نہیں کی، وہ خود جانا چاہتے تھے۔ وہ سمگلروں کی منت سماجت کر رہے تھے کہ مہربانی کرو۔ کبھی سمگلر کہتے کہ صرف خدا کے لیے ہم ان کی مدد کریں گے۔ پھر وہ شکایت کرتے ہیں اور ایسا ویسا کہتے ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے۔‘
سنہ 2016 سے 2019 کے درمیان بچھو کے مطابق وہ بیلجیئم اور فرانس میں ہونے والے آپریشن کی سربراہی کرنے والے دو لوگوں میں سے ایک تھا اور اس نے اعتراف کیا کہ اس وقت اس نے لاکھوں ڈالر وصول کیے۔
’میں نے وہ کام کیے ہیں۔ پیسہ، مقام، مسافر، سمگلر۔۔۔ میں ان سب کے بیچ میں تھا۔‘ تاہم بچھو کا کہنا ہے کہ اب وہ انسانی سمگلنگ میں ملوث نہیں۔ لیکن اس کا عمل اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔
بچھو کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوا لیکن جب وہ اپنے فون کی سکرین دیکھ رہا تھا تو روب کو دیوار پر لگی ایک تصویر کے فریم میں بچھو کے فون کی سکرین کی جھلک نظر آئی۔ روب کو پاسپورٹ نمبروں کی ایک فہرست نظر آئی۔ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ انسانی سمگلر یہ فہرست عراقی حکام کو بھجواتے ہیں جن کو رشوت دے کر جعلی ویزا لگوایا جاتا ہے تاکہ تارکین وطن ترکی کا سفر کر سکیں۔
یہ آخری موقع تھا جب ہم نے بچھو کو دیکھا۔ ہر موقع پر ہم نے برطانیہ اور یورپ میں حکام کو اپنی معلومات فراہم کیں۔
بیلجیئم کی پبلک پراسیکیوٹر این لکوویاک بچھو کو سزا دلوانے کے قانونی عمل میں شریک رہی ہیں اور ان کو اب بھی امید ہے کہ ایک دن اسے عراق سے لایا جا سکے گا۔
’ہمارے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ایسا سگنل بھیجا جائے کہ آپ اپنی مرضی سے ہر کام نہیں کر سکتے۔ ہم آخرکار اسے پکڑ لیں گے۔‘