پاناما لیکس کے کئی سال بعد عالمی رہنماؤں، سیاستدانوں اور دیگر طاقتور افراد کی خفیہ دولت کی تفصیلات کے حوالے سے ’دبئی اَن لاکڈ‘ کے نام سے ایک اور لیک سامنے آگئی ہے۔
تفصیلات تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) طرز کے ایک اور تحقیقاتی کنسورشیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے ڈیٹا لیک کی شکل میں جاری کیں۔
دبئی ان لاکڈ کی تفصیلات کے مطابق دنیا بھر کے چوٹی کے امیر افراد کی دبئی میں اربوں ڈالرز کی جائیدادیں موجود ہیں۔
دبئی میں غیر ملکیوں کی 389 ارب ڈالر کی جائیدادیں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ان جائیدادوں کے مالکان میں سرفہرست روس کے طاقتور افراد بتائے گئے ہیں۔
دبئی ڈیٹا لیکس کے مطابق دبئی میں طور جائیدادیں رکھنے والوں میں پاکستان سمیت دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
دبئی ڈیٹا لیکس میں 17 ہزار پاکستانی شہری دبئی میں رہائشی املاک کے مالکان کے طور پر ظاہر کیے گئے ہیں۔
ڈیٹا میں پاکستانیوں کی جانب سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں کُل سرمایہ کاری کی مالیت ساڑھے 12 ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ عالمی سرمایہ کاری کی فہرست میں دبئی میں رہائشی جائیداد کی خرید و فروخت میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔
سیاست دانوں، میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد، بڑی کاروباری شخصیات اور ملٹری افسران کے نام بھی دبئی لیکس میں شامل ہیں۔
ڈیٹا لیک میں پاکستانیوں کو دبئی کے مہنگے ترین علاقوں میں بطور پراپرٹی مالکان ظاہر کیا گیا جن میں دبئی مرینا، ایمریٹس ہلز، بزنس بے، پام جمیرہ اور البرشہ شامل ہیں۔
ڈیٹا لیکس میں کسی مالیاتی جرائم کے پیسوں سے خریدی گئی جائیدادوں کا ثبوت نہیں اور نہ ہی آمدنی کے ذرائع، رینٹ کی مد میں ٹیکس ڈیکلیریشن جیسی معلومات شامل ہیں۔
تاہم سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ ایسے حالات میں جہاں ایک طرف پاکستان ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت دیگر ممالک سے بھی مدد کی امید لگائے بیٹھا ہے، وہیں دوسری طرف بڑی اور سیکڑوں پراپرٹیز رکھنے والے پاکستانیوں کے نام سامنے آنے پر ملکی سیاست اور حالات میں تناؤ آسکتا ہے۔
او سی سی آر پی اور نارویجن آؤٹ لیٹ ’ای – 24‘ کی سربراہی میں 6 ماہ کی عالمی تحقیق میں 58 ممالک کے 74 میڈیا آؤٹ لیٹس کے صحافیوں نے حصہ لیا، جن میں ڈان بھی شامل ہے۔
دبئی میں غیر ملکیوں کی جائیدادوں میں بھارت پہلے نمبر پر ہے جس کے 29 ہزار 700 مالکان کی 35 ہزار جائیدادیں ہیں۔
2022 کے اعداد و شمار کے مطابق دبئی میں بھارتیوں کی جائیدادوں کی مالیت 17 ارب ڈالر ہے۔
دبئی میں رہائشی جائیداد کی خرید و فروخت میں عالمی سطح پر پاکستان کا دوسرا نمبر ہے اور پاکستانی شہریت والے 17 ہزار مالکان کی دبئی میں 23 ہزار جائیدادیں ہیں۔ ساڑھے 19 ہزار برطانوی شہریوں کی دبئی میں 22 ہزار جائیدادیں ہیں جن کی مالیت 10 ارب ڈالر ہے۔
ساڑھے 8 ہزار سعودی شہری دبئی میں 16 ہزار جائیدادوں کے مالک ہیں جن کی مالیت ساڑھے 8 ارب ڈالر ہیں۔
دبئی لیکس میں کن پاکستانیوں کے نام شامل ہیں؟
صدر آصف زرداری کے تینوں بچوں کے نام شامل
سابق صدر مرحوم پرویز مشرف کا نام بھی فہرست میں شامل
سابق وزیر اعظم شوکت عزیز بھی فہرست کا حصہ
حسین نواز شریف بھی دبئی میں جائیداد کے مالک
وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہلیہ بھی جائیداد کی مالک
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن اور اہلیہ کےنام بھی فہرست میں شامل
سینیٹر فیصل واڈا کا نام بھی جائیداد مالکان میں شامل
پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت کا نام پراپرٹی لیکس میں شامل
فہرست میں فرحت شہزادی عرف فرح گوگی کا نام بھی شامل
سندھ کے 4 ارکان قومی اسمبلی کے نام فہرست میں موجود ہے
سندھ اور بلوچستان اسمبلی کے 6 سے زائد ارکان کے نام بھی شامل
ریٹائرڈ سرکاری افسران، پولیس چیف، سفارت کار، سائنسدان کا نام بھی شامل
نوٹ: بیرون ملک جائیداد کا مالک ہونا بذات خود کوئی جرم نہیں، اور نہ ہی پاکستان سے باہر جائیداد کا مالک ہونا غیر قانونی سرگرمی ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے بہت سے افراد کے پاس جائیدادیں ہیں، ان لوگوں نے جائیدادیں آمدن پر ٹیکس ادا کر کے خریدی ہیں۔ بیرون ملک جائیدادوں کی قانونی حیثیت کا تعین کرنا متعلقہ ملک کے ٹیکس حکام کا معاملہ ہے۔