جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے،خود اس کیلئے یہ پابندی کیوں نہیں؟ مصطفیٰ کمال

Pinterest LinkedIn Tumblr +

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ ایک غریب اور مڈل کلاس آدمی بغیر پیسا خرچ کیے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتا، ایک جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کے لیے یہ پابندی کیوں نہیں؟

اسلام آباد میں دیگر رہنماؤں کے ہمرا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کیا دہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی اسمبلی نہیں بن سکتا، تمام اداروں میں دہری شہریت کے قوانین لاگو ہونے چاہئیں۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ایک جج دہری شہریت پر عوامی نمائندے کو گھر بھیج سکتا ہے تو خود اس کے لیے یہ پابندی کیوں نہیں؟ ایک غریب اور مڈل کلاس آدمی بغیر پیسہ خرچ کیے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں جاری خلفشار کی وجہ سے ریاست میں کشمکش ہے، اس طرح کی سیاسی صورتحال سے ایک سیاسی کارکنان خاموش نہیں رہ سکتا ہے، عدلیہ نے نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر گھر بھیج کر ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔

مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ملک میں جعلی ڈگریوں، دہری شہریت پر ایم این ایز، سینیٹرز کو گھر جاتے دیکھا ہے، عدلیہ جیسے ادارہ میں قول و فعل میں تضاد آ رہا ہے، کیا دہری شہریت والے کسی شخص کو عدالت کا جج ہونا چاہیے؟

ان کا کہنا تھا کہ دہری شہریت پر رکن اسمبلی کو گھر بھیج دیاجاتاہے، شریعت عدالت سے سود کے خلاف فیصلہ آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک جج کی مبینہ دہری شہریت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو جواب یہ آیا کہ ائین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ دہری شہریت رکھنے والا شخص جج نہ بن سکے، ذرا تصور کریں کہ جب آپ شہریت کا حلف اٹھاتے ہیں تو آپ اس ملک سے وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں، آپ کسی ملک سے وفاداری کا حلف اٹھائیں اور ملک کے سب سے معتبر ادارے کی کرسی پر بیٹھ جائیں، اور لوگوں کی قسمت کے فیصلے کریں۔

انہوں نے کہا کہ صرف عام لوگ ہی نہیں آپ اتنے طاقتور ہوں کہ وقت کے وزیراعظم کو گھر بھیج سکیں، اور آپ کے اوپر یہ پابندی ہی نہیں کہ دہری شہریت نہیں رکھ سکتے، یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

’پاکستان میں عدلیہ کسی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیےتیار نہیں‘
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ عدلیہ کو اس بات کا جواب دینا چاہیے، ایک جج کے بارے میں سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ہم یہ ساری گفتگو دیکھ رہے ہیں کہ ان کے پاس گرین کارڈ ہے، ان کے خاندان کے پاس شہریت ہے، جو پروسیجر اپنایا جانا چاہیے تھا جج بننے کے لیے، وہ نہیں اپنایا گیا، یہ سب چیزیں ہم دیکھ اور سن رہے ہیں۔

رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب کوئی متاثرہ شخص عدالت میں آئے تو اس کو تحفظ کا احساس ہو لیکن پاکستان میں کسی مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے عدلیہ تیار نہیں ہے، وہ سارے کیسز چلتے ہیں جن سے ہیڈلائنز بنتی ہیں، جن کے ٹکرز چلتے ہیں، دیگر کیسز سالہا سال پڑے رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک جج کو تکلیف پہنچے، ایک جج کے خط پر سوموٹو ہوگیا، سود کے معاملے پر جہاں اللہ کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اللہ سے جنگ پر آمادہ ہیں وہاں پر کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی، وہاں کوئی تکلیف نہیں ہو رہی، ایک دن کے فیصلے کی مار ہے کہ ساری اپیلیں مسترد ہوجاتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن ممالک میں ’عرب اسپرنگ‘ آیا، بڑا شور ہوا کہ انقلاب آرہا ہے، آج ان ملکوں کا حشر دیکھیں، لاکھوں لوگ شہید ہوگئے، خانہ جنگی جاری ہے، بدخواہوں نے کیا کیا، وہاں کی فوج کو ’ڈسمینٹل‘ کردیا، جھتے بن گئے، ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور آج آپ حشر دیکھیں۔

مصطفٰی کمال نے کہا کہ ملک کے دشمن پاکستان میں بھی ویسے ہی حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں، ہمارے معاشرے میں ان کے پاس اس کے لیے بے پناہ مواقع ہیں، ہم کئی طرح سے تقسیم ہیں، اگر کسی چیز نے اس ملک کو یکجا اور متحد رکھا ہوا ہے، ان میں سے ایک چیز یہاں کی فوج ہے۔

’ فوج کو کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے’
رہنما ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ آپ مسلح افواج پر تنقید کر سکتے ہیں،ان کے غلط کاموں پر بات کرسکتے ہیں، ہم بھی کرتے ہیں، ویسے بھی آج کل تو مشہور ہونے کے لیے اس کا فیشن ہے۔

انہوں نے کہا ملک کو متحد رکھنے میں سب سے بڑا کردار فوج ہے، اج ہمیں یہ لگ رہا ہے کہ جس طرح ادارے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ فوج کو کمزور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، یہ کوشش ابھی سے نہیں عرصہ دراز سے ہو رہی ہے، یہ نیا حملہ ہوا، ایسا لگ رہا ہے کہ فوج اور عدلیہ کے درمیان جنگ چل رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت کے وزیراعظم کو اقامہ رکھنے پر گھر بھیج دیں اور خود وہ اگر فرض امریکا کی وفاداری کا حلف اٹھالے، آج گوکہ نہیں اٹھایا ہوا لیکن اہل خانہ نے حلف اٹھایا ہوا ہے، یہ بہت بڑے بڑے سوالات ہیں، ان کا ہمیں جواب چاہیے کہ ملک میں ہو کیا رہاہے، ہم کس طرف جا رہے ہیں۔

Share.

Leave A Reply