وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ دبئی لیکس میں آنے والی میری اہلیہ کی پراپرٹی 2017 سے تھی اور پچھلے سال انہوں نے اسے بیچ کر دوسری لی، ان کی برطانیہ میں بھی جائیدادیں ہیں جس میں سے کچھ انہیں ورثے میں ملی ہیں اور کچھ انہوں نے خریدی ہیں
وزیر داخلہ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج امن و امان کی صورتحال پر وزیراعظم نے میٹنگ کی ہے جس میں آزاد کشمیر کے وزیراعلیٰ بھی تھے اور بروقت پیکج کے اعلان سے وہاں کے لوگ کافی خوش ہیں کہ ان کو ریلیف مل گیا ہے اور 23 ارب روپے آزاد کشمیر حکومت کے اکاؤنٹ میں پہنچ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں میں امن و امان کے مسئلے سے صوبے خود نمٹتے ہیں، ہم نے صرف معاونت کرنی ہوتی ہے، میں آزاد کشمیر جا کر فیصلہ نہیں لے سکتا، جب انہیں رینجرز، پیرا ملٹری اور دیگر تکنیکی چیزیں درکار تھیں تو وہ ہمیں فراہم کرنی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کا اعتراض تھا کہ میں آزاد کشمیر کیوں نہیں گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ 18ویں ترمیم پڑھ لینی چاہیے، میں رینجرز کی تعیناتی کی ایک فون پر کہیں سے بھی منظوری دے سکتا ہوں، اسلام آباد یا دیگر جگہ جہاں ہمیں کردار ادا کرنا ہو گا تو ہم وہاں موجود ہوں گے۔
دبئی میں جائیداد کے حوالے سے سوال پر محسن نقوی نے کہا کہ میری اہلیہ کی یہ پراپرٹی 2017 سے تھی اور پچھلے سال انہوں نے بیچ کر دوسری لی، ان کی برطانیہ میں بھی جائیدادیں ہیں جس میں سے کچھ انہیں ورثے میں ملی ہیں اور کچھ انہوں نے خریدی ہیں، یہ جائیدادیں غالباً انہوں نے 10سال پہلے خریدی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں 10سال یا چھ سات سال پہلے تو میں کسی بھی حکومتی دفتر میں نہیں تھا، آپ خبر بالکل دیں یا آپ کا حق ہے، آپ یہ کہیں کہ یہ جائیداد انہوں نے ڈکلیئر نہیں کی ہے، یہ جائیداد انہوں نے ناجائز پیسوں سے لی ہے، یہ نارکوٹکس کے پیسوں سے بنی ہے، یہ ضرور دیں لیکن ہم نے تو بم چلا دیا کہ ہم نے جائیدادیں نکال لیں، اگر آپ الیکشن کمیشن کے گوشوارے نکال لیتے تو یہ جائیدادیں آپ کو ویسے ہی مل جانی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے کتنے لوگوں کی جائیداد بیرون ملک ہے، ان کے میڈیا نے تو اس کو ایسے نہیں چلایا، اب بھی اگر سمجھوں گا کہ مجھے بطور بزنس مین سرمایہ کاری کرنی ہے تو مجھے اگر پاکستان یا باہر جہاں بہتر سمجھوں گا وہاں کروں گا، اگر میرے پاس قانون رقم ہے اور میں ٹیکس دیتا ہوں تو میں کیوں نہیں لوں گا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ کسی کے پاس ناجائز پیسوں سے جائیداد ہے، اس نے ڈکلیئر نہیں کی ہے یا رشوت سے لی ہے تو ضرور اس کا ایشو بنائیں لیکن مجھے افسوس اس چیز کا ہے کہ ہر چیز موجود ہے لیکن اس کو اس طرح سامنے لایا گیا جیسے پتا نہیں کس پیسوں سے لی گئی ہے، یہ زیادتی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دبئی لیکس کے حوالے سے حکومت ایک پیج پر ہے، اس حوالے سے وزیر اطلاعات، خواجہ آصف اور میں نے بھی جوابات دیے، میں تو سمجھتا ہوں میں نہ جانے کدھر پھنس گیا ہوں، یہ سب کرنا آپ کا حق ہے لیکن میری ایک نجی زندگی ہے، میری ساری زندگی کی کام کو آپ غیرقانونی بنا رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہزاروں لوگوں کی دبئی میں جائیدادیں ہیں جن کا نام اس فہرست میں نہیں آیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ٹارگٹ کر کے کیا گیا ہے، میڈیا ہاؤسز سمیت بہت سارے لوگوں کی جائیدادوں کا ہمیں پتا ہے، ان کی چیزیں ڈکلیئر بھی ہیں لیکن میں اس پر کسی پر الزام عائد نہیں کرنا چاہتا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اس سلسلے میں انکوائری صرف ان کی ہونی چاہیے جنہوں نے جائیداد ڈکلیئر نہیں کی ہے یا غیرقانونی طریقے سے لی ہے، ہم نے بزنس مین کو گالی بنایا ہوا ہے اور بھارت کی ترقی کی صرف ایک وجہ ہے کہ وہ اپنے بزنس مین کو سپورٹ کرتے ہیں اور ہمارا بزنس مین ذرا بھی ترقی کرتا ہے تو ہم اسے چور کہہ دیتے ہیں۔
علی امین گنڈاپور کی جانب سے گرڈ اسٹیشن کا کنٹرول سنبھالنے کے بیان کے حوالے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سمجھدار آدمی ہیں اور انہوں نے یہ سیاسی بات کی ہو گی، میرا نہیں خیال کوئی بھی پاکستانی یا عقلمند آدمی یہ سوچے گا کہ سرکاری عمارت پر اس طرح قبضہ کرنا ہے، اگر کوئی اس طرح کی چیز سوچے گا تو اس کو اسی طرح ہینڈل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں ہوے والے احتجاج کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کا اندیشہ ہے، ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ کس طرح باہر کے ملکوں میں سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی کہ 17 بندے مرگئے، 11 بندے مر گئے، ویڈیوز کو ایڈٹ کیا گیا جس پر ہم نے پہلے ہی کام شروع کردیا ہے، اس کا ہمسایہ ملک سے کہیں نہ کہیں لنک بن رہا ہے، ہم اس پر باضابطہ طور پر اس وقت بات کریں گے جب ہمارے پاس حتمی ثبوت ہو گا۔